دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وہ چھوٹا سا ملک جو روس، یوکرین جنگ کی وجہ سے امیر ہو رہا ہے
No image روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں سابق سوویت یونین کی چھوٹی سی ریاست جارجیا کی ایسی چاندی ہوئی جس کی اس ملک کے حکام کو بھی توقع نہیں تھی۔تقریبا 37 لاکھ نفوس پر مشتمل جارجیا کا ملک روس کی جنوبی سرحد پر واقع ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے ہزاروں روسی شہری نقل مکانی کر کے جارجیا پہنچے ہیں۔ اور یہ روسی تارکین وطن اپنے ساتھ غیر معمولی رقوم بھی لے کر آئے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہی ملک جس کی ترقی کی شرح جنگ سے قبل پانچ فیصد تک تھی، اب 10 فیصد کے حساب سے ترقی کر رہا ہے۔یاروسلاوا بیبچ جارجیا کی ٹبیلیسی سٹیٹ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سکول آف اکنامکس میں سینٹر فار ریسرچ آن میکرو اکنامکس کے ڈائریکٹر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’روس سے بے پناہ پیسہ جارجیا میں آیا۔

ان کے اندازے کے مطابق جنوری سے اکتوبر کے درمیان 1.4 ارب امریکی ڈالر تک رقوم جارجیا لائی گئیں جو 2021 میں اسی دورانیے کے مقابلے میں 3.6 فیصد زیادہ ہے۔پیسے کی اسی ریل پیل کی بدولت جارجیا کی کرنسی، لاری، امریکی ڈالر کے مقابلے میں 15 فیصد تک مضبوط ہوئی ہے۔

روسی شہریوں کا سیلاب
اندازوں کے مطابق روس، یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک 70 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان روسی شہری جارجیا منتقل ہو چکے ہیں۔ان کی درست تعداد کا تخمینہ لگانا اس لیے مشکل ہے کیوںکہ روس، یوکرین اور بیلاروس سے آنے والے لوگوں سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ جارجیا چھٹی منانے آ رہے ہیں یا پھر مستقل رہائش اختیار کرنے۔حتی کہ ان ممالک سے جارجیا آنے والے شہریوں کو ایک سال تک رہنے اور کام کرنے کی قانونی اجازت بھی دی جاتی ہے۔وہ جب چاہیں ملک چھوڑ سکتے ہیں اور پھر سے ایک سال کے لیے جارجیا سکونت اختیار کر سکتے ہیں اور اس طرح روس، یوکرین اور بیلاروس کے ہزاروں لوگ بنا کسی پابندی کے جارجیا میں رہائش پذیر ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یاروسلاوا بیبچ کا کہنا ہے کہ یہ کافی دوستانہ پالیسی ہے۔
اگرچہ روسی شہریوں کی آمد کا سلسلہ جنگ کے بعد سے مستقل رہا ہے تاہم دو مخصوص لہروں کی شناخت ضرور کی جا سکتی ہے۔ پہلی لہر مئی جبکہ دوسری لہر ستمبر کے مہینے میں اس وقت آئی جب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے فوج میں لازمی بھرتی کی پالیسی کا اعلان کیا۔ٹبیلیسی جیسے شہروں میں روسی شہریوں کی آمد کے بعد بینکوں کے باہر قطاریں لگنا شروع ہو گئیں اور کرائے کے مکانوں کی مانگ ایسے بڑھی کہ مقامی لوگ اتنے کرائے دینے کے قابل نہیں رہے۔

جارجیا میں روسی کمپنیاں
جارجیا میں کسی غیر مقامی کے لیے اپنی کمپنی کھولنا بہت آسان ہے۔یاروسلاوا بیبچ وضاحت کرتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس یہاں چند دنوں میں کمپنی رجسٹر ہو جاتی ہے۔ اور روسی شہریوں نے اس آسانی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ 2021 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ کمپنیاں رواں سال رجسٹر ہو چکی ہیں۔جنوری سے ستمبر کے دوران روسی شہریوں نے 9500 کمپنیاں کھلوائیں۔ ان میں سے اکثریت ذاتی کاروبار کے مقصد سے کمپنی کھول رہے تھے تاہم ان کی اصل نوعیت کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔دوسری جانب بینک اکاؤنٹس بھی کھلوائے جا رہے ہیں۔

خدشات
جارجیا کا روس سے تعلق پیچیدہ ہے۔سنہ 2008 میں روس اور جارجیا کے درمیان ایک مختصر جنگ بھی ہو چکی ہے۔ چند مقامی لوگوں کو اندیشہ ہے کہ روسی شہریوں کی نقل مکانی کے جارجیا پر منفی معاشرتی اور معاشی اثرات ہوں گے۔میخائیل کوکاوا کا کہنا ہے کہ یہ ترقی ایک دھماکے میں بدل سکتی ہے۔دھماکہ اس لیے کہ ان کے خیال میں مستقبل میں روس جارجیا پر اسی طرح دھاوا بول سکتا ہے جیسے اس نے یوکرین پر حملہ کیا۔’اگر روس نے جارجیا پر حملہ کیا تو حالیہ معاشی ترقی ایک تنازعے میں بدل جائے گی۔جارجیا تاہم اس وقت زراعت، کان کنی اور سٹیل کی پیداوار پر انحصار کرنے والے اس ملک کی معیشت پر واضح اثر پڑا ہے۔مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع جارجیا میں حالیہ عرصے میں سیاحت میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے جس سے ملک کی میعشت کو مزید فائدہ ہوا ہے۔

یہ ترقی کب تک رہے گی؟
جارجیا کی حکومت کا خیال ہے کہ 2023 تک معاشی ترقی کی رفتار میں کمی آئے گی جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا اندازہ ہے کہ معاشی ترقی جنگ سے پہلے کی سطح پر واپس آ جائے گی۔لیکن اہم سوال یہ ہے کہ روسی شہری جارجیا میں کب تک رہیں گے؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔جو لوگ یہاں پر نوکری کی تلاش کر رہے ہیں، ان کے لیے مستقل طور پر رہائش پذیر ہونا مشکل ہو گا۔
یاروسلاوا بیبچ کا کہنا ہے کہ یہ معاشی ترقی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی۔ ’اس کا انحصار جنگ کے رُخ پر ہو گا۔‘تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’پیسے کی وقتی منتقلی طویل المدت سرمایہ کاری میں بدلے، ایسا ہونا مشکل ہے۔‘انھوں نے خبردار کیا کہ جارجیا اور روس کی متنازع تاریخ کی وجہ سے معاشرتی تلخیاں بڑھ سکتی ہیں۔جیسا کہ کرائیوں میں اضافے کی وجہ سے مقامی لوگ متاثر ہو رہے ہیں جو اگرچہ عارضی ہے لیکن کم معاشی وسائل کے باعث ایک بڑا چیلنج ضرور ہے۔

بشکریہ:بی بی سی
واپس کریں