دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسرائیل کا فلسطینی علاقے میں یہودیوں کی 10 نئی بستیوں کی تعمیر کا منصوبہ
No image اسرائیلی حکام نے جنوبی شہر بیر شیبہ میں ایک شاپنگ سینٹر پر حملے میں ایک فلسطینی شہری کے قتل کے بعد کابینہ اجلاس میں فلسطین کے علاقے صحرائے نقب میں دس نئی بستیوں کی تعمیر کی منظوری کی رسمی کارروائی کا منصوبہ بنالیا۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر داخلہ اور ہاؤسنگ کے وزیر کا کہنا ہے کہ پانچ صیہونی قصبے عراد شہر کے قریب اور مزید پانچ اس سڑک کے قریب بنائے جائیں گے جو بیر شیبہ اور دیمونا شہر کو ملاتی ہے.

اسرائیلی وزیر داخلہ کا فیصلے سے متعلق کہنا تھا کہ یہ تاریخی اور دلچسپ فیصلہ نقب کے تصفیہ کو مضبوط بنانے میں اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔وزیر ہاؤسنگ کا کہنا تھا کہ اس تعمیراتی منصوبے سے نقب کی معیشت مضبوط ہوگی ور اسرائیلی خاندانوں کے لیے وہاں منتقل ہونا اور وہاں رہائش اختیار کرنا بہت زیادہ پسندیدہ ہو جائے گا۔

اس ماہ کے شروع میں بھی ان دونوں وزرا نے نقب میں دو نئی بستیوں کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔

فلسطینی گاؤں کاسفہ اور فلسطینی اکثریتی قصبے تل عراد کے مضافات میں چند ماہ میں کاسیف نامی صیہونی گاؤں تعمیر کیا جائے گا، نئے تعمیر ہونے والے گاؤں میں ایک لاکھ سے ایک لاکھ پچیس ہزار لوگ رہائش اختیار کرسکیں گے۔

دوسرا ٹاؤن مصر کی سرحد کے قریب واقع ہوگا، یہ ایک زرعی شہر ہو گا جس میں تقریباً 22 سو خاندان ہوں گے اور مبینہ طور پر یہ چھوٹے قصبے نطزنی سینائی توسیعی منصوبہ کا حصہ ہے۔اسرائیل کی شہریت رکھنے والے فلسطینیوں کی تعداد تقریباً 3 لاکھ ہے، یہ شہری نقب کے علاقے کے درجنوں دیہات میں رہتے ہیں۔

ان شہریوں میں سے تقریباً ایک لاکھ شہری حکومت کی جانب سے غیر تسلیم شدہ دیہاتوں میں رہتے ہیں اور انہیں کسی بھی قسم کا انفرا اسٹرکچر یا حکومتی سپورٹ حاصل نہیں ہے، ان کے پاس نقل و حمل کا کوئی ذریعہ نہیں، سڑکیں نہیں، اسکول نہیں ہے جبکہ اسرائیلی حکام مقامی قیادت کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔

ایک سابق کنیسٹ ممبر اور نقب میں عربوں کے لیے ہائیر اورینٹیشن کمیٹی کے کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ "سرکاری سطح پر ہمیں کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی جیساکہ نقب میں کوئی عرب نہیں رہتا،ہم نقب میں 32 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، لیکن اسرائیلی حکام اس طرح کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہیں۔

تقریباً 6 لاکھ اسرائیلی 230 بستیوں میں رہتے ہیں جو 1967 کے مغربی کنارے اور مشرقی القدس کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد سے تعمیر کی گئی ہیں۔

فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ ہو، جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو, اسرائیل-فلسطینی مذاکرات کا آخری دور 2014 میں ختم ہو گیا تھا، ان مذاکرات کے اہم نکات میں اسرائیل کی جانب سے آباد کاری کی مسلسل توسیع تھی۔تمام اسرائیلی بستیاں عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں کیونکہ وہ مقبوضہ زمین پر تعمیر کی گئی ہیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متعدد قراردادوں میں اسرائیل کی آبادکاری کی سرگرمیوں کی مذمت کی ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ میں اسرائیل پر نسل پرستی کے الزامات
دریں اثنا، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مائیکل لینک نے جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام لگایا ہے۔

فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر 1967 سے خصوصی نمائندے، کے عنوان سے مرتب کی گئی رپورٹ میں مائیکل لینک نے لکھا کہ عالمی برادری کی موجودگی میں اسرائیل نے نسل پرستی کے بعد کی دنیا میں فلسطین پر نسل پرستی مسلط کر دی ہے۔

کینیڈا کے قانونی ماہر نے کہا ہے کہ تل ابیب کی حکومت فلسطینی سرزمین کو الگ الگ علاقوں میں تقسیم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی القدس کو ایک دوسرے سے الگ الگ کیا گیا ہے۔

مائیکل لینک کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کا استعمال 20 لاکھ فلسطینیوں کی ناپسندیدہ آبادی کے گودام کے طور پر کرتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی مزدوروں کو اسرائیل میں کام کرنے کے لیے ہزاروں ورک پرمٹ جاری کرنا کسی ایک نسلی گروہ کی محنت کے استحصال کے مترادف ہے۔

گزشتہ ماہ کم از کم 277 انسانی حقوق کے گروپوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کے جرم پر اسرائیل کی مذمت کی اور کہا کہ حکومت کو ایسے عمل کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔

16 عرب ممالک کے ساتھ ساتھ چھ یورپی اور لاطینی امریکی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی، جنگی جرائم اور نسلی امتیاز کے ارتکاب میں ملوث اسرائیلی حکام کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔

ان تنظیموں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے نسل پرستانہ طرز عمل اور ایک کمتر نسلی گروہ کے طور پر سلوک کی مذمت کی اور حکومت کے نسل پرستانہ اقدامات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ایک مہم شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے تل ابیب حکومت کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کے علاوہ اسرائیلی فوجی حکام کے خلاف سفری پابندیوں اور اثاثوں کو منجمد کرنے سمیت دیگر تعزیری اقدامات پر بھی زور دیا۔
بشکریہ ڈان نیوز
واپس کریں