دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنوبی پنجاب صوبے کا بل لانے کا مقصد؟ حکومت کی ٹھگی
No image ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کی حکومت ایک بحران سے گزر رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے تو جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کسی اور موضوع پر بات کرنے کے بجائے جنوبی پنجاب صوبے کے بل پر بات کی ہے۔

ایسے میں جہاں ایک طرف اپوزیشن عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے لیے حکومت کے اراکین اور اتحادیوں کی مدد مانگ رہی ہے وہاں وزیرخارجہ جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق بل پر اپوزیشن سے مدد مانگ رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے اس بل پر تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت کی درخواست کی ہے اور انھوں نے شکوہ کیا کہ سیاسی جماعتیں اس متعلق ان کے خطوط کا جواب ہی نہیں دے رہی ہیں۔

انھوں نے سابق وزیراعظم اور ملتان سے اپنے سیاسی حریف یوسف رضا گیلانی کو خصوصی طور پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ کو جنوبی پنجاب کا صوبہ چاہیے تو آؤ اس بل کی حمایت کرو اور اس کے بل پر ووٹ دو۔‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب سے متعلق بل کو کابینہ کے ممبران کو بھیجا ہے۔ ان کے مطابق 28 مارچ کو جنوبی پنجاب کا آئینی بل لایا جا رہا ہے جو جنوبی پنجاب کے لوگوں کے لیے خوش آئند ہے۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق ’ملتان میں سیکریٹریٹ کا آغاز ہو گیا ہے۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے ایک بحرانی وقت کو ہی ایک نئے صوبے کے قیام کے لیے کیوں چنا اور یہ کس حد تک سنجیدہ تحریک ہے؟

یہ بات بھی اہم ہے کہ اس وقت جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے متعدد اراکین قومی اسملبی بھی حکومت سے ناراض ہیں اور انھوں نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ان ناراض حکومتی اراکین میں سے کم از کم سات اراکین کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ کیا حکومت ان ناراض اراکین کو منانے کے لیے یہ بل سامنے لے کر آئی ہے؟

’یہ حکومت کی ٹھگی ہے‘
جنوبی پنجاب محاذ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی سردار ریاض محمود خان مزاری، جو اس وقت عمران خان سے ناراض اراکین کی صف میں شامل ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی حکومت صوبہ بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے، یہ محض حکومت کی ٹھگی ہے۔‘
ان کے مطابق یہ لوگ (وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار) تین سال سے میرے والد (میر بلخ شیر مزاری، سابق نگران وزیراعظم) سے بھی نہیں ملے جو اس نئے صوبے کے قیام کے روح رواں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی ہارنے لگتا ہے یا گرنے لگتا ہے تو ایسے میں صرف اسے جنوبی پنجاب کی یاد ستاتی ہے۔ ان کے مطابق ’یہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک آخری کارڈ ہے۔‘

خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اپنے دور حکومت کے آخری وقت میں ایسا ہی ایک بل پیش کیا تھا مگر وہ پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہو سکا تھا۔

ریاض مزاری نے تحریک عدم اعتماد اور حکومت کے رویے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک طرف ہمارے سر پر 63 اے کی تلوار لٹکائی ہوئی ہے اور شوکاز نوٹس دے رہے ہیں اور پھر وزیراعظم کے لیے ووٹ بھی مانگ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اب اپنے علاقے کے لوگوں کے مفاد کو سامنے رکھ کر تحریک عدم اعتماد پر بھی فیصلہ کریں، جہاں حکومت نے نہ صرف الگ صوبے کا حق نہیں دیا بلکہ امن اور پانی جیسی بنیادی ضروریات بھی فراہم نہیں کی ہیں۔

شاہ محمود قریشی کے اعلان پر انھوں نے کہا کہ یہ جنوبی پنجاب کا کیسا سیکریٹریٹ ہے جو آدھا ملتان میں ہے اور آدھا بہاولپور میں۔ ان کے مطابق اگر یہ صوبہ بن بھی گیا تو ہم تخت لاہور سے تخت ملتان کے قیدی بن جائیں گے۔
ریاض مزاری کے مطابق رحیم یار خان کے لیے تو 40 ارب روپے کا پیکج دیا گیا مگر جو راجن پور جیسے پسماندہ علاقے ہیں ان کے لیے حکومت نے کچھ بھی نہیں دیا، جس سے حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اپنے ردعمل میں انھوں نے کہا کہ ’کوئی کیسے پھر عدم اعتماد کی طرف نہ جائے۔‘

ریاض مزاری کا کہنا ہے کہ یہ اپنی حکومت بچانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آئین میں تحریک عدم اعتماد کا تصور ہی نہیں ہونا چاہیے یا پھر مرضی سے ووٹ دینے کا حق ملنا چاہیے۔’یہ درست وقت ہے، بل پر میرے بھی دستخط ہیں‘
رکن قومی اسمبلی اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رہنما سردار نصراللہ دریشک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود اس بل پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں اور ان کے خیال میں یہ نیا صوبہ بنانے کا ایک موزوں وقت ہے۔
ان کے خیال میں ’امتحان تب شروع ہوتا ہے جب کوئی افراتفری ہو۔ ایسے میں کسی کو یہ خیال آتا ہے کہ کرنے والے کون سے کام رہ گئے ہیں، ورنہ امن میں تو کوئی بھی توجہ نہیں دیتا ہے۔‘

نصراللہ دریشک کا کہنا ہے کہ اس بل کی حمایت سب کو کرنی چاہیے کیونکہ اس بل کی مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے رکن یا جماعت کی جنوبی پنجاب سے چھٹی ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق اس بل پر جنوبی پنجاب کے تمام ارکان پارلیمنٹ ووٹ ڈالیں گے۔’یہ بحران میں نہیں بلکہ عام حالات میں کرنا والا کام ہے‘
سیاسی اور آئینی امور کے ماہر اور پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفراللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ نئے صوبے کے قیام کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس لیے یہ (حکومت والے) بار بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو خط لکھ رہے ہیں۔ یہ بحران میں نہیں بلکہ عام حالات میں کرنے والے کام ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ’بظاہر یہ حکومت کی سیاسی چال ہے۔‘

ظفراللہ خان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے نئے صوبوں کے قیام کے لیے فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی۔ تاہم پیپلز پارٹی کے دور میں بھی جنوبی پنجاب کا بل پاس نہیں ہو سکا تھا۔

ظفراللہ خان کے مطابق نئے صوبے کے قیام یا کسی علاقے کو ضم کرنے کے لیے اتفاق رائے درکار ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں اتفاق رائے سے ضم کیا گیا یعنی پہلے پارلیمنٹ سے یہ بل پاس ہوا اور پھر متعلقہ صوبے نے بھی اس کی منظوری دی۔

ان کے مطابق اب جنوبی پنجاب صوبے کے لیے بھی پہلے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اس بل کا دوتہائی اکثریت سے پاس ہونا ضروری ہے اور اس کے بعد پنجاب کی اسمبلی سے بھی اس کی منظوری ضروری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت ساڑھے تین سال اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکی ہے۔
’جنوبی پنجاب کے لیے حکومت نے سنجیدگی نہیں دکھائی‘
سرائیکی لوک سانجھ کے صدر اکرم میرانی اور جنرل سیکریٹری صفدر کلاسرہ نے بی بی سی کو اس بل پر اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ جو ایشو ہمارے لیے ایک انتہائی سنجیدہ اور بقا کا مسئلہ ہے اسے حکومت نے مذاق بنا دیا ہے۔
ان کے مطابق ان کے علاقے کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’یہ بل ایک ایسے وقت میں لایا جا رہا ہے جب حکومت کا اپنا مستقبل یقینی نہیں ہے اور اپنی بقا کی فکر میں کوئی اور ایشو نہیں ملا تو جنوبی پنجاب صوبے کا معاملہ اٹھا دیا۔‘

اکرم میرانی کے مطابق پاکستان بننے سے لے کر آج تک آنے والی حکومتوں نے جنوبی پنجاب کے اس کے حقوق نہیں دیے اور اسے پنجاب سے علیحدہ صوبہ نہیں بننے دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف نے سنہ 2018 کے انتخاب میں سرائیکی وسیب کے لوگوں کی محرومیوں کو دور کرنے کا ہدف اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا مگر پھر حکومت نئے صوبے کے قیام کے لیے کبھی پرعزم نظر نہیں آئی۔

بشکریہ؛ بی بی سی۔
واپس کریں