دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یادوں کے دریچے ۔تحریر : محمود اسلم ایبٹ آباد
No image لاہور بھاٹی ، لوہاری سے دہلی دروازہ اور سٹیشن تک چلنے والے ٹانگے ہمیں یاد ہیں ۔۔ ان کوچوانوں کے گھوڑے بڑے صحت مند ہوتے تھے ۔۔ اور لوہاری سے سٹیشن تک تانگہ سواری کا اپنا ایک لطف تھا ۔۔
اس دور میں سڑکوں پر گاڑیوں کا ٹریفک جام نہ تھا اور چنچی رکشوں نے ابھی قدرتی ماحول اور انوائرمنٹ کو تباہ نہ کیا تھا ۔۔
ہم لوگ جی ٹی ایس کی صاف ستھری اور کشادہ بسوں میں پنڈی اور لاہور جاتے ۔۔
اس بابرکت اور با سہولت دور میں جی ٹی روڈ کے دونوں طرف لگے درخت اپنی بھینی بھینی مہک فضا میں پھیلاتے تھے ۔۔
سڑکیں خالی ہوتی تھیں اور اکا دکا گاڑی نظر آتی تھی ۔۔ راولپنڈی کینٹ والوں نے بھی کینٹ پر قبضہ نہ کیا تھا اور انگلش فورڈ ویگنیں ہمیں ایبٹ آباد سے بٹھا کر پنڈی صدر سیروز سینما کے پاس اتارتی تھیں ۔۔
راولپنڈی مال روڈ کے انگریز کے لگائے دیو ہیکل درخت ابھی کٹے نہ تھے اور اوڈین سینما اور سوجان سنگھ کی جانب سے عوام کے لئے تحفہ کئے گئے شاہ بلوط کینٹ پارک سے انٹر کانٹیننٹل ہوٹل تک براستہ فلیش مین ہوٹل چہل قدمی کا اپنا ہی مزہ تھا ۔ ۔
کبھی کبھار والد صاحب کار میں اسلام آباد اور لاہور کی سیر کروانے لے جاتے تو ہم بس کی نسبت کار کی سیٹوں کا آرام محسوس کرتے اور کار کی عمدہ سسپنشن اور سبک خرامی سے خوب لطف اندوز ہوتے ۔۔
لاہور کی فضا خاموش ، پرسکون اور صاف ستھری تھی ۔۔ بھاٹی ، لوہاری اور دہلی دروازے کے باہر والی گرین بیلٹس ابھی قائم تھیں اور پہلوانوں کے اکھاڑے جا بجا نظر آتے تھے ۔۔ جہاں موٹے تازے پہلوان کسرت کرتے ہوئے یا کشتی اور کبڈی کی پریکٹس کرتے دکھائی دیتے ۔۔
ایبٹ آباد بھی کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہونے اور ٹریفک کے اژدہام کے ہاتھوں تباہ ہونے سے پہلے بہت ہی پرسکون ، خوبصورت اور صاف ستھرا تھا ۔۔
جہاں جا بجا دیوہیکل چیڑھ و چنار کے درخت اپنا سایہ کئے ہوتے اور ان درختوں کی اوٹ سے سربن ، شملہ و ٹھنڈیانی کے پہاڑ اپنے حسن کی جھلک دکھاتے ۔۔
ایبٹ آباد کے تانگوں کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔۔ شروع میں خان لوگوں کے پاس چند تانگے ہوتے تھے جن میں کچھ وہ خود اور کچھ کو کوچوان چلاتے تھے ۔۔ محنت میں عظمت پر یقین رکھنے والا دور تھا ۔۔
تاج محل سینما اور رائل سینما کے باہر خاص طور پر ٹانگے کھڑے ہوتے تھے جو سواریوں کو لے کر شیخ البانڈی اور نواں شہر کی جانب لے کر جاتے تھے ۔۔
جناح آباد ، منڈیاں ایوب کمپلکس کی نئی آبادیاں ابھی نہ بنی تھیں اور وہاں تا حد نظر سر سبز شاداب کھیت و باغات و گلاب چنبیلی و بید مجنوں کے درختوں کے جھنڈ ہوتے تھے ۔۔
جن کے بیچوں بیچ جب کی صاف و شفاف ندی بہتی تھی ، جس میں مچھلیاں تیرتی تھیں اور کہیں کہیں خانہ بدوش مرغابیاں اور جنگلی بطخیں بھی دکھائی دے جاتیں ۔۔
لینڈ مافیا کے ہاتھوں ایبٹ آباد کے تباہ ہونے سے پہلے "جب" ندی اور ملکپورہ کی صاف شفاف ندیوں ، چشموں اور جھرنوں میں لوگ وضو بھی کرتے تھے اور ساتھ ہی واقع سبز گھاس کے قدرتی مصلوں پر نماز بھی پڑھتے تھے ۔۔
چنار روڈ کے ساتھ واقع گالف کورس کے گرد والی دیوار نہ بنی تھی اور بہت ہی خوبصوت نظارہ اور گھاس کے تختے دور دور تک دکھائی دیتے تھے ۔۔ ہم لوگ گالف کورس میں اندر جا کر چہل قدمی کرتے ، فوجیوں کی یادگار توپیں اور دیگر تاریخی اشیا دیکھتے اور تاحد نظر پھیلے سبزہ زاروں اور چناروں کے حسن سے لطف اندوز ہوتے ۔۔ نماز کا ٹاٹم ہونے پر لوگ گالف کورس کے کونے میں فوجی سنتریوں سے چھپ کر نماز بھی پڑھ لیتے تھے ۔۔
اس وقت چناروں کا گلا بیوٹیفیکشن کے اربوں روپے ہڑب کرنے کی خاطر کنکریٹ سے گھونٹا نہ گیا تھا ۔۔
قدرتی کچے ماحول میں بارش کا پانی بھی خوب جذب ہو کر زیر زمین پانی کے ذخائر کو بڑھاتا اور پتے وغیرہ گر کر جو قدرتی کھاد بنتی اس سے عید گاہ اور چنار روڈ کے درخت اور زیادہ خوش ہوتے اور پھلتے پھولتے تھے ۔۔
افسوس کہ وہ تمام درخت اپنا قدرتی ماحول تباہ ہونے کی وجہ سے یا تو مر چکے ہیں یا ان کی صحت کمزور ہو گئی ہے اور دیمک وغیرہ اور دیگر بیماریوں نے ان بوڑھے مگر پرشکوہ درختوں پر حملہ کر دیا ہے ۔۔
چنار روڈ پر چلتے ٹانگوں کی ٹک ٹک اور ان کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی بازگشت دور تک سنائی دیتی اور کانوں کو بھلی لگتی ۔۔ آبادی کا دباوُ تو آیا مگر انگریز نے شہر کی حفاظت کے لئے ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں جو میونسپل کمیٹی ، کینٹ بورڈ اور محکمہ جنگلات و تحفظ ماحولیات کے ادارے بنائے تھے ان کے اہلکاروں نے رشوت کی شکل میں ذاتی فائدے تو خوب اٹھائے مگر دنیا کے اس خوبصورت ترین شہر کو تباہ کروا دیا ۔۔
رہے نام مولا کا ۔۔
واپس کریں