دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان سڑکوں پر کیوں ہے؟ آصف ممتاز ملک ایڈووکیٹ ۔
No image پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 28 اکتوبر 2022 کو لاھور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا اور ابتدا" دو سے تین دن میں لاھور سے اسلام آباد پہنچنے کا کہا تھا یعنی 30 یا 31 اکتوبر 2022 کو اس لانگ مارچ کو لاہور سے اسلام آباد پہنچنا تھا لیکن آج 16 نومبر تک یہ مارچ اسلام آباد نہیں پہنچا اور اب عمران خان کی جانب سے 21 نومبر تک اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ دی گئی ہے اور وہ بھی اسلام آباد نہیں بلکہ 'راولپنڈی' پہنچنے کا اعلان کیا جارہا ہے۔

آج کے اس کالم میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے آخر کیا بات ہے کہ خان صاحب کا یہ لانگ مارچ 3 دن سے 24-25 دن کے طویل لانگ مارچ میں تبدیل ہوگیا ہے اور اسکی آخری منزل ملک کا دارالحکومت اسلام آباد کی بجائے 'پاک فوج کا ہیڈکوارٹر' راولپنڈی بن چکا ہے۔
یہاں ایک اور اہم بات جسکا تذکرہ بیحد ضروری ہے وہ یہ کہ جب یہ لانگ مارچ شروع کیا گیا تھا تو عمران خان نے اس لانگ مارچ کا مقصد 'حقیقی'آذادی' بیان کیا تھا جبکہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے حقیقی آزادی کس سے؟؟ اس سوال کا جواب پی ٹی آئی سپورٹرز اور عمران خان صاحب یہ دیتے ہیں کہ وہ ہمیں امریکہ کی غلامی سے آزادی دلوانا چاہتے ہیں۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب نے اپنے پونے چار سالہ دور میں ایسا کیوں نہ کیا؟؟

کیا عمران خان نے کوئی ایک بھی کام ایسا کیا جس سے یہ ثابت ہوکہ خان صاحب پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کے قائل تھے۔ خان صاحب کے دور میں پٹرول 74 روپے لیٹر سے 150 روپے لیٹر تک پہنچ گیا، سردیوں میں گیس کا نام تک نہیں ہوتا تھا اور بجلی، ادویات اور گیس کی قیمتیوں میں 400 گنا تک اضافہ ہوا۔ جس کے باعث ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والا طوفان آگیا جس نے قوم کی چیخیں نکلوا دیں۔ پوری قوم بالخصوص غریب طبقہ فاقوں پہ مجبور ہوگیا جبکہ اس مسئلے کا بہت آسان حل موجود تھا کہ سابقہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے جو 'پاک ایران گیس پائپ لائن' کا منصوبہ ایران کے ساتھ شروع کیا تھا اس کو فورآ مکمل کر لیا جاتا اور ایران جو کہ ہمارے بارڈر پہ موجود ہے سے دنیاں کی کم ترین قیمت یعنی 15 روپے لیٹر کے حساب سے تیل خرید لیا جاتا اور ان تمام مسائل سے باآسانی بچا جا سکتا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ایسا کرنے سے پاکستان کے تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے لیکن 'امریکہ ناراض ہو جاتا' لہزا عمران خان نے بھی باقی لیڈرز کی طرح امریکہ کی ناراضگی مول لینے سے اجتناب کیا اور قوم کو غربت اور ذلت کے عزاب میں تڑپتے دیکھنا مناسب سمجھا۔

تو پھر حکومت گرنے کے بعد خان صاحب کیوں مسلسل جھوٹ سے کام لے رہے ہیں ؟؟
اب تو صوتحال یہ ہے کہ قوم کو 'حقیقی'آذادی' کے مارچ میں مصروف کرکے خان صاحب نے 'امریکہ سے دوستی' یا پی ٹی آئی سپورٹرز کی زبان میں "امریکی غلامی" کا بھی از خود اعلان کردیا ہے۔ چند دن قبل عمران خان نے فنانشل ٹائمز یوکے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ 'نئے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں' ۔جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ آپ تو کہتے تھے امریکہ نے میری حکومت گرائی ہے تو عمران خان نے جواب دیا"وہ باتیں میں پیچھے چھوڑ چکا ہوں".

"اب میں امریکہ پر الزام نہیں لگاتا"
عمران خان نے مزید کہا میں ایک ایسے پاکستان کی قیادت کرنا چاہتا ہوں 'جو امریکہ سے بہترین تعلقات رکھتا ہو' (پی ٹی آئی سپورٹرز کی زبان میں امریکہ کا غلام ہو)۔جب عمران خان سے سوال کیا گیا کہ آپ تو کہتے تھے 'امریکہ ہم سے غلاموں کی طرح برتاؤ کرتا ہے' تو عمران خان نے کہا 'اس میں امریکہ کا کوئی قصور نہیں' بلکہ اس میں سارا قصور ہماری سابقہ حکومتوں کا ہے۔

عمران خان نے اپنے دورہ روس کے بارے میں کہا اگر چہ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا لیکن "میں سمجھتا ہوں یہ دورہ میرے لیئے شرمندگی کا باعث بنا" ۔عمران خان کا یہ انٹرویو پڑھنے کیلئے گوگل پر
"Financial Times Imran Khan"
لکھ کر سرچ کریں تو عمران خان کا پورا انٹرویو پڑھا جا سکتا ہے ۔واہ خان صاحب واہ خوب بیوقوف بنایا قوم کو۔مزے کی بات یہ ہے کہ خان صاحب کا حقیقی آزادی کے نعرے سے شروع ہونے والا اسلام آباد کی جانب مارچ اب گھوم جھوم کر نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور جی ایچ کیو راولپنڈی کے گھیراؤ کی طرف یکا یک تبدیل ہو چکا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار افواج پاکستان سے باقاعدہ جنگ کا اعلان کیا جا چکا ہے ۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے لوگ روزانہ کی بنیاد پر پاک فوج، پاک فوج کے جنرلز اور حتیٰ کہ انکی فیملیز کو ننگی گالیاں دے رہے ہیں ۔ عمران خان خود فوج کے جنرلز کو میر جعفر ، میر صادق ، جانور، غدار حتیٰ کہ چوکیدار تک کہہ چکے ہیں اور مسلسل کہے چلے جارہے ہیں ۔

یہ سب باتیں کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں، عمران خان نے ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ کچھ دن قبل عمران خان کے حامیوں نے کور کمانڈر پشاور کے گھر پہ حملہ کیا، لاھور کینٹ میں گھسنے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر دن رات فوج کے خلاف ایسا زہر اگلا جارہا ہے کہ پاکستان کے ہر دشمن کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔
انڈین چینلز اور تجزیہ نگار خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ انڈیا اربوں روپے خرچ کرکے بھی یہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا تھا جو صرف عمران خان نے کر دکھایا ہے ۔

اب واضح طور پر عمران خان کی اگلی منزل راولپنڈی میں پاک فوج کا ہیڈکوارٹر ہے اور اس سارے فساد اور ڈرامے کے پیچھے عمران خان کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ پاکستان آرمی کا نیا چیف عمران خان کی مرضی کا ہو جسے حکومت اور فوج ماننے سے صاف انکاری ہیں۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر آرمی چیف سے عمران خان نے ایسا کیا کام لینا ہے کہ اسکی سوئی آرمی چیف کی تعیناتی پر اٹک گئی ہے۔ کیا سچے اور مخلص لیڈرز ایسے ہوتے ہیں؟؟
واپس کریں