دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سڑکیں اور راستے بند کرنے کی سیاست
No image پرامن احتجاج پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے لیکن عوام کے معمولاتِ زندگی میں خلل پیدا کرنا سنگین جرم ہے جس کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔بین الاقوامی قانون عوام کے لیے کسی بھی راستے، سڑک یا گزرنے کے کسی بھی راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے منع کرتا ہے۔قانون کی شقوں کے مطابق کوئی بھی شخص یا گروہ سڑک یا راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سے سختی سے نمٹا جاتا ہے۔یہ اسلام کی تعلیم میں بھی سنگین جرم ہے۔ دوسروں کے لیے مصیبتیں پیدا کرنا اسلام اور اس کی تعلیمات کے منافی ہے۔یہ عمل نہ تو قومی خدمت ہے اور نہ ہی جمہوری نوعیت کا کوئی اقدام۔ درحقیقت اس طرح کے عمل کو غیر جمہوری عمل کہا جاتا ہے اور مغربی علماء اسے”سیاسی اسلام“ کا نام دے رہے ہیں۔

ماضی قریب میں پی ٹی آئی کی جانب سے مہینوں تک ایسا ہی گھناونا طریقہِ کار اختیار کیا گیا تھا جس نے ریاستِ پاکستان کو بدنام کرتے ہوئے دوسروں خصوصاً پاکستان کی آنے والی نسلوں کے لیے غلط ترجیح دی۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان (جسٹس افتخارچوہدری) کی بحالی ایسے ہی غیر جمہوری اور غیر مہذب عمل کے ذریعے عمل میں لائی گئی تھی جبکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی سپریم کورٹ کی طرف سے معزول ہونے کے بعد یہ طریقہ استعمال کیا۔یہی نہیں بلکہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی 2019 میں ایجی ٹیشن اور احتجاج کی اسی سیاست کا انتخاب کیا۔
ایک ماہ سے زائد عرصے سے پاکستان تحریکِ انصاف کے احتجاجیوں کی جانب سے ملک کے متعدد مقامات پر روڈ بلاک اور دھرنوں نے مختلف شہروں خصوصاً دارالحکومت اسلام آباد جانے والے لوگوں کے لیے پریشانی کی صورتحال پیدا کر رکھی دی ہے۔ جڑواں شہروں میں شہریوں کے لیئے اپنے اداروں، دفاتر، ہسپتال اور کام کی جگہوں پر پہنچنا ایک مشکل بن چکا ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں معیشت پہلے ہی غوطے کھا رہی ہو، جمہوری عمل اور جمہوریت کے فروغ کے تناظر میں احتجاج اور ایجی ٹیشن کا یہ غیر جمہوری طرزِ سیاست بہت خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ایک طرح سے سڑکوں اور شہروں میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف محاذ آرائی اور ایجی ٹیشن کی سیاست بازی کی جا رہی ہے۔جبکہ سڑکیں بند کرنے والا احتجاج، روڈ بلاک اور طاقت کا استعمال غیر قانونی اور آئینی دفعات کی روح کے خلاف بھی ہیں۔جہاں ایک فردِ واحد اپنے سیاسی مفادات کے لیے ریاست اور اس کے اداروں کو داؤ پر لگا رہا ہے۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ایک بڑی ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ ریاست کو مضبوط کرنے اور پاکستانی عوام کو بااختیار بنانے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایسی منفی سیاست میں ملوث رہے ہیں۔ایسے جلسوں یا احتجاج میں ریاست کی مستقبل کی حکمت عملی، اس کے سیکورٹی کے مسائل، اس کی خارجہ پالیسی کی تشکیل، اس کی گرتی ہوئی معیشت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے 65 فیصد نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہوتی۔

پاکستان کے بے روزگار نوجوانوں کو یا تو یہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے یومیہ اجرت کے طور پر استعمال کرتی ہیں یا پھر انہیں عسکریت پسند تنظیمیں، قوم پرست اور دیگر ریاست مخالف قوتیں عسکریت پسندی کے لیے استعمال کرتی ہیں اسی باعث پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن، سماجی ٹوٹ پھوٹ اور معاشی ویرانی چھائی ہے اوریہ سب کچھ چند افراد، چند خاندانوں کے زاتی اہداف کے حصول اور فائدے کے لیے ہو رہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ریاست کے بائیس کروڑ عوام اپنے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور ایسے قوانین بنانے پر زور دیں جو پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوں۔ مثلا جو عوامی مقامات، سڑکوں اور شاہراہوں کو بند کرنا بند کرنے،، مریضوں، طلباء اور غریب محنت کش طبقے کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے حوالے سے ہوں۔ ریاست ِپاکستان چند افراد، چند خاندانوں اور مذموم سیاسی تنظیموں سے زیادہ اہم ہے جو راستے اور شاہراہیں بند کرتے ہیں۔
واپس کریں