دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
’سیاست پاکستان میں، جوڑ توڑ لندن میں‘۔عبدالستار، اسلام آباد
No image پاکستانی سیاست دان مختلف ادوار میں اہم ترین سیاسی فیصلے لندن میں بیٹھ کر کرتے آئے ہیں۔ نواز شریف کی اس وقت برطانوی دارلحکومت میں موجودگی نے اسے پھر سیاسی سر گرمیوں کا مرکز بنا دیا ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کرسی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک تین مرتبہ لندن یاترا ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں کے مطابق انہوں نے اس دورے میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے صلاح مشورہ کیے۔
لندن میں نواز شریف سے ملنے والوں میں صرف شہباز شریف ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کئی اہم رہنما بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ صحافی اور دانشور بھی وقتاﹰفوقتاﹰ لندن کے ایوان فلیڈ اپارٹمنٹس میں واقع ایک فلیٹ پر نواز شریف سے ملتے رہتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور شریف فیملی کے کئی دوسرے ارکان بھی لندن میں ہی موجود ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ لندن اور پاکستانی سیاست کا کیا رشتہ ہے۔

کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ برطانوی دارالحکومت شروع سے ہی پاکستانی سیاست میں مختلف وجوہات کی بنا پر جلوہ گر رہا ہے۔
سیاسی جبر اور لندن
کراچی میں مقیم تجزیہ نگار زاہدہ حنا کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے 1958ء میں اسکندر مرزا کو جلا وطن کیا گیا، تو انہوں نے لندن میں سکونت اختیار کی۔ 'انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کیونکہ ہم برطانوی استعمار کے قبضے میں تھے اور ہمارے ان سے تاریخی مراسم تھے تو ہمارے حاکم طبقات کے وہاں پر پہلے سے تعلقات تھے۔ لیکن بعد میں بڑے پیمانے پرسیاسی کارکنان جو لندن گئے اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں سیاسی جبر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مزدور رہنما مختار رانا وہاں پر گئے۔ اس کے علاوہ جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو پیپلز پارٹی کے قائدین نے لندن میں جاکر پناہ لی۔ پی آئی اے کے ورکرز کو جب نکالا گیا، تو ان کی ایک بڑی تعداد بھی لندن گئی۔‘‘معروف تجزیہ نگار اور ڈیلی ٹائمز کے سابق ایڈیٹر راشد رحمان زاہدہ حنا کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان میں جب بھی کوئی مارشل لاء لگتا تھا یا حکومت تبدیل ہوتی تھی، تو وہ مخالفین پر جبر شروع کر دی تھی اور اس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو لندن کا رخ کرنا پڑا۔‘‘

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ صرف آمرانہ ادوار میں ہی نہیں ہوا بلکہ جمہوری دور میں بھی ایسا ہوا۔ راشد رحمان کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب کے دور میں لندن پلان کی اصلاح استعمال کی گئی۔ ''حقیقتا کچھ پاکستانی طلبا اور مزدور پاکستان واپس آکر ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن بھٹو صاحب کے دور میں اس پلان کی اصطلاح ایجاد ہوئی، جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ کچھ بلوچ اور دوسرے رہنما پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی لندن پلان بھی بنایا ہے۔‘‘

راشد رحمان کے مطابق بعد میں اس میں بھارت کو بھی جوڑ دیا گیا۔ ''اور جب بھٹو کے دور میں عراقی سفارت خانے سے کچھ ہتھیار ملے، تو اس کو بھی اسی سازش سے جوڑ دیا گیا۔‘‘
دیگر عوامل
زاہدہ حنا کے خیال میں کچھ اور عوامل نے بھی لندن کو پاکستانی سیاست کا مرکز بنانے میں مدد دی۔ '' اس دور میں ویزے آسانی مل جاتے تھے کیوں کہ پاکستان دولت مشترکہ کا رکن تھا۔ پاکستان کے حاکم طبقات کے بہت سارے افراد نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی، تو ان کے پہلے سے ہی وہاں پر مراسم تھے۔ لندن کو سیاسی رہنما اس حوالے سے بھی پسند کرتے تھے کہ وہاں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی اچھی موجودگی بھی تھی، تو آپ اپنے پیغام کو بہتر انداز میں بین الاقوامی برادری تک پہنچا سکتے تھے۔‘‘

مشہور پاکستانی شخصیات
لندن یا برطانیہ کے دوسرے علاقوں میں آ کر کئی نامور پاکستانی سیاسی شخصیات نے پناہ لی۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاض خان، جو اب لندن میں مقیم ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتاتے ہیں۔ ''نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو بھی یہاں پر رہے۔ مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پھر یہاں سے چلے گئے۔ اس کے علاوہ غلام مصطفی کھر، پنڈی سے پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی جاوید حکیم قریشی، لاہور سے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سردار مظہر علی خان اور پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن نیئر حسن ڈار بھی لندن میں مقیم رہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر صحت امیر حیدر کاظمی، جام صادق علی، رانا شمیم احمد خان، جو پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر تھے، وہ بھی یہاں پررہے۔‘‘
جمہوریت کی بحالی
1988ء میں بینظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سارے سیاسی کارکنان ملک واپس آ گئے لیکن نوے کی دہائی میں سندھ کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم، جسے اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کہا جاتا تھا، کے خلاف آپریشن شروع ہوگیا۔ پھر ایم کیو ایم کی سیاست کا محور لندن ہوگیا۔ کئی سیاسی رہنما بشمول نواز شریف لندن ایم کیو ایم کے رہنما سے ملاقات کے لئے آئے۔ نوے کی دہائی میں لندن سے ہی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی کال دی جاتی تھی، جس نے سندھ کی شہری سیاست اور پاکستان کی معیشت کو بہت متاثر کیا۔

جنرل مشرف کا دور
جنرل مشرف کے دور میں جب ایم کیو ایم کو کو سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لینے کی اجازت ملی، تو لندن ایک بار پھر بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ مشرف حکومت کے کئی ارکان نے ایم کیو ایم کے سربراہ سے ملاقات کی۔ تاہم اسی اثنا میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ پر جبر شدید ہوگیا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کئی رہنماؤں نے لندن میں سکونت اختیار کی۔ بے نظیر بھٹو نے 1997ء کے بعد ملک چھوڑا اور مشرف کے دور میں انہوں نے لندن کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ نواز شریف نے اپنی جلاوطنی کے کچھ برس سعودی عرب میں گزارے اور بعد میں وہ بھی لندن شفٹ ہوگئے۔
اس دوران لندن میں میں آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور دوسری سیاسی جماعتوں کے کئی اہم اجلاس ہوئے، جس میں محمود خان اچکزئی، عمران خان، مولانا فضل الرحمن اور کئی دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر بھی یہیں دستخط کئے۔

گوکہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو 2007 ء میں پاکستان واپس لوٹ گئے لیکن نواز شریف کی فیملی کے کچھ ارکان نے لندن میں ہی سکونت اختیار کر لی اور 2018 ءکے بعد جب شریف فیملی پر مشکل وقت آیا، تو شریف فیملی کے کئی ارکان لندن کی یاترا کرتے رہے۔ اب شریف فیملی کا مسکن لندن ہے اور جب سے شہباز شریف اقتدار میں آئے ہیں پارٹی کے کئی اہم فیصلے اورکئی اہم اجلاس لندن میں ہی ہوئے ہیں۔

اس وقت ملک میں سب سے بڑا فیصلہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا ہے اور انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق اس کے حوالے سے اہم صلاح مشورے شریف براداران کے درمیان برطانوی دارالکحومت میں ہی ہوئے ہیں۔

بشکریہ:ڈی ڈبلیو
واپس کریں