دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔ارشد محمود
No image ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب لئے حاضر ہوا
قابلیت پوچھی گئی کہا سیاسی ہوں
(عربی میں سیاسی افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں)
بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی اسے خاص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا لیا جو حال ہی میں فوت ہوچکا تھا
چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا
اس نے کہا ”نسلی نہیں ہے“
بادشاہ کو تعجب ہوا اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا
اس نے بتایا گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ہے، مسئول کو بلایا گیا تم کو کیسے پتا چلا اصیل نہیں ہے؟
اس نے کہا: جب یہ گھاس کھاتا ہےتو گائیوں کیطرح سر نیچے کرکےجبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لیکر سر اٹھا لیتاہے۔بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔مسئول کے گھر اناج، گھی بھنے دنبے اور پرندوں کا اعلیٰ گوشت بطور انعام بھجوایا، اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کردیا،
چند دنوں بعد بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،
اس نے کہا: طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن شہزادی نہیں ہے
بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی حواس بحال کیئے ساس کو بلا بھیجا، معاملہ کیا اسکے گوش گذار کیا. اس نے کہا: حقیقت یہ ہے تمہارے باپ نے میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ مانگ لیا تھا لیکن ہماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ہوگئی تھی چنانچہ ہم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کیلئے کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنالیا۔
بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا تم کو کیسے علم ہوا
اس نے کہا، اس کا خادموں کے ساتھ سلوک جاہلوں سے بدتر ہے۔
بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ہوا اور بہت سا اناج،بھیڑ بکریاں بطور انعام دیں ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کردیا،
کچھ وقت گزرا،
مصائب کو بلایا اور اپنے بارے میں دریافت کیا.مصاحب نے کہا جان کی امان بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:
”نہ تو تم بادشاہ زادے ہو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ہے“
بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،
سیدھا والدہ کے محل پہنچا، والدہ نے کہا یہ سچ ہے، تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لیکر پالا،
بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور پوچھا بتا تجھے کیسے علم ہوا ؟
اس نے کہا: بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں تو ”ہیرے موتی, جواہرات“ کی شکل میں دیتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں عنایت کرتے ہیں، یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو سکتا ہے۔ پاکستان پر بھی ایک کم نسل مسلط کیا گیا جو کبھی انڈا مرغی کٹا اسکیم تو کبھی دودھ اور شہد سے انقلاب لانے کی ترکیبیں قوم کو بتاتا،
تو کبھی جاپان جرمنی کا بارڈر ملاکر جگ ہنسائی کا باعث بنتا
ایکطرف قوم کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر لنگر خانے کھولنے کا کہتا ہے تو دوسری طرف چوری کرکے کرہشن کا شور مچاتا ہے جس گھٹیا شخص کی ساری زندگی دوسروں کے جیبوں پہ ہاتھ صاف کرتے گزری ہو وہ اس قوم کو بھیک مانگنے کے نت نئے طریقےسکھانے کےسوا دے کیاسکتا ہے۔
عادات اخلاق اور طرز عمل خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ہیں۔
واپس کریں