دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کے موجودہ حالات اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار۔خالد محمود عباسی
No image آج دنیا جو ہمارے ایٹمی ہتھیاروں سے ڈر رہی ہے تو اُن کی فکر کی وجہ یہ نہیں کہ ہم نے یہ ہتھیار بنا کیسے لیے۔ انہیں ڈر دراصل اس بات کا ہے کہ ایک نا ایک دن معرکۂ طالوت و جالوت پھر سجنا ہے اور اُس وقت ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے رکھوالوں میں سے کہیں کوئی داؤد برآمد نہ ہو جائے۔ لہٰذا اُن کی پوری کوشش ہے کہ اُس معرکے سے پہلے اِن رکھوالوں (جن میں سے کسی داؤد کے برآمد ہونے کا امکان اور خوف لاحق ہے) کا یہ گوپیا (ایٹمی میزائل) چھین لو۔ یہ ہے وہ امکانی صورتحال جس کو سامنے رکھ کر ہمیں موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا چاہئیے کہ ہمارے گرد گھیرا کیوں تنگ کیا جا رہا ہے۔
اِس اصل حقیقت تک ہماری رسائی روکنے کے لیے ہمیں کچھ اور ہی چکروں میں ڈال دیا گیا ہے۔ دکھایا کچھ اور جا رہا ہے اور درپردہ واردات کچھ اور ہی ڈالی جا رہی ہے۔ اسی پس منظر میں حالیہ دنوں میں امریکی صدر جوبائیڈن کا بیان بھی دیکھیں اور روس کے آفیشلز نے جو بیان دیا ہے وہ بھی دیکھیں۔ وہ بیانات ہماری ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے اُن کی تشویش اور بے چینی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ معلوم ہوتا کہ آنے والے منظر نامے میں اِس گوپیا (ہمارے ایٹمی میزائل) کا کوئی فیصلہ کُن رول ہو سکتا ہے جو عالمی مستقبل کی پلاننگ کرنے والے شاطرنقشہ نویسوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ جو حدیثوں میں حضرت مہدی کا ذکر آتا ہے کہ اُن کے خلاف شام سے ایک لشکر حجاز کی طرف روانہ ہو گا اور جب وہ لشکر مکہ اور مدینہ کے درمیان پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ آپ یہ غور کریں کہ ہم ہمیشہ اِس حدیث کو پڑھ کر یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اس لشکر کو معجزاتی طور پر دھنسا دیا جائے گا۔ لیکن اگر آپ عالَمِ اساب کو ذہن میں رکھیں تو کوئی ایسی ٹیکنالوجی بھی تو ہو سکتی ہے جو پورے کے پورے لشکر کو تباہ کر دے۔ اب ذرا سوچیں کہ پوری د نیا کے مسلمان ممالک میں سے یہ صلاحیت کس ملک کے پاس ہے؟ کون سا ملک اسباب کی سطح پر یہ سب کرنے کی صلاحییت (capability) رکھتا ہے؟ وہ ایک ہی ملک ہے۔ دراصل تو ہم نے یہ ہتھیار انڈیا کے خلاف اپنے دفاع کے لیے اپنے deterrence کے طور پر بنائے ہیں اور یہ بات صرف اتنی تو نہیں کہ ہم نے محض ایٹم بم بنا لیا ہے۔ انڈیا کے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے چیلنج نے ہمیں مجبور کیا کہ پھر ہم نے کچھ چھوٹے ایٹم بم (جنہیں Tactical Weapons بھی کہا جاتا ہے) بھی بنا لیے جو صرف کسی محدود علاقے تک تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ یہ اور بھی زیادہ خطرناک چیز ہے۔ اور حدیثوں میں جس شامی لشکر کے زمین میں دھنسنے کا ذکر ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ دھنسنا کسی ایسے ہی ہتھیار کے استعمال کا نتیجہ ہو۔ اِس نئے رُخ پر سوچیں تو گوپیا تو تیار ہو گیا ہے، بس کسی داؤد کا سامنے آنا رہ گیا ہے۔ لیکن آپ کے دشمن اِس خطرہ کو محسوس کر رہے ہیں کہ یہ گوپیا ہمارے خلاف بھی کام میں آ سکتا ہے۔
موجودہ عالمی منظرنامے اور اس کی خطرناکی کو سامنے رکھ کر اب اگر ہم پاکستان کے موجودہ ابتر حالات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی اب کسی حد تک حالات کی اِس ابتری میں اپنے منفی رول کا احساس پیدا ہوا ہے۔ اِسی وجہ انہوں نے پبلکلی آ کر اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے اور اُن غلطیوں کو سدھارنے کے اعادہ کا بھی اظہار کیا ہے۔ طاقت کی حرکیات (Power Dynamics) کو سمجھنے والا ایک ادنیٰ سا طالبعلم بھی اس حقیقت سے آگاہ ہو گا کہ ٹرانسفر آف پاور اگر تدریجاً کی بجائے یکدم ہو تو اس سے انارکی اور انتشار جنم لیتے ہیں کیونکہ طاقت کے پیدا ہونے والے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے طاقت کے حصول کے متمنی کئی دھڑے یا جتھے باہم دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ اور کوئی بھی معقول اور صاحبِ بصیرت شخص ایسے حالات کی خواہش نہیں کرے گا۔
اسی لیے میں علیٰ وجہہ البصیرۃ یہ رائے رکھتا ہوں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ملک کے سیاسی حالات اور منظرنامے سے یکدم نیوٹرل ہو کر خود کو لاتعلق کر لینا ہرگز درست اقدام نہیں ہو گا۔ ٹرانسفر آف پاور کا یہ مرحلہ تدریجاً عبور کرنا چاہئیے۔ اگر واقعی انہیں اپنے ماضی کی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے تو آئیندہ کے لیے ایمانداری اور خلوص کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ پھر دوبارہ کسی نئے پراجیکٹ کو لانچ نہیں کریں گے اور اپنی آئیندہ کی مساعی سویلین انسٹیٹیوشنز کی مضبوطی اور استحکام میں خرچ کریں گے۔ جیسے جیسے سویلین انسٹیٹیوشنز مضبوطی پکڑتے جائیں گے اسٹیبلشمنٹ تدریجاً طاقت انہیں منتقل کرتی جائے اور بالآخر اپنی اصل آئینی حدود تک خود کو محدود کر لے۔ انہیں جمہوری اداروں اور جمہوری روایات کے پروان چڑھانے اور انہیں استحکام دینے میں کفالت کا کردار ادا کرنا چاہئیے کیونکہ لمحۂ موجود میں طاقت کا مکمل ارتکاز اسٹیبلشمنٹ (جس کا ظاہری چہرہ فوج ہے) میں ہے۔ چونکہ ہمارے سیاسی ادارے مستحکم نہیں ہیں اور ہماری سیاسی جماعتیں بھی مستحکم نہیں ہیں تو ابھی اِس سیاسی استحکام کے لیے اِن کی ضرورت رہے گی۔ ابھی ہمارے سیاسی ادارے اتنے میچیور نہیں ہیں اور نا ہی اتنے بالغ ہیں کہ یکدم سب کچھ اِن کے حوالے کر دیا جائے۔ اور سیاسی اداروں کے اِس عدم استحکام اور نابالغ ہونے کی وجہ بھی ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلتیں ہی رہی ہیں۔ لہٰذا اب یہ اُن کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ جو بگاڑ انہوں نے پیدا کیا ہے اسے سدھارنے میں بھی اپنا مثبت رول ادا کریں۔

دوسری طرف ہمیں بھی اوپر بیان کیے گئے مستقبل کے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ اِس بات کا احساس رہنا چاہئیے کہ ریاستِ پاکستان کی حد تک ہماری فوج کا اب تک جو بھی منفی کردار رہا ہے ہمیں اپنی نظروں کو صرف اسی تک نہیں جما دینا چاہئیے۔ بہرحال چاہے اِس وقت ہم مسلمان مختلف ملکوں میں تقسیم ہیں لیکن ہمارے دلوں اور امنگوں میں امتِ مسلمہ کا خواب ہمیشہ زندہ رہا ہے اور تاقیامت زندہ رہے گا۔ جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ مجھے امتِ مسلمہ کے روشن مستقبل کے تناظر میں اپنی اس قوت (فوج) کا بہرحال ایک رول نظر آتا ہے۔ تو اپنی اِس توقع اور امید کے پیشِ نظر میں اِن کی ماضی کی غلطیوں پر اپنی نظریں جمائے رکھنے کی بجائے اِن کے ساتھ ہمیشہ سے اچھا رویہ رکھنے یا اِس ادارے کے دفاع کی بات کرتا آیا ہوں اور اِس ادارے کے خلاف بحیثیتِ ادارہ پروان چڑھنے والی سوچ کا مخالف رہا ہوں اور ایسی مخاصمانہ سوچ کو ہمیشہ رد کرتا آیا ہوں۔ یہ کام اور کوئی نہیں کر رہا ہے اور کوئی اِس لیول کی تھریٹ سے بھی آگاہ نہیں کر رہا، جبکہ خطرات بہت سیریس نوعیت کے ہیں۔ چونکہ وہ حقیقی خطرات ڈسکس نہیں ہو رہے، اس لیے قوم بھی ان خطرات سے بے خبر ہے۔ تو اپنی عوام کو اُن حقیقی خطرات سے آگاہ بھی کرنا ہے اور ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے عوام میں اِس ادارے کے بارے میں جو منفی جذبات پیدا ہو رہے ہیں ان کا تدارک بھی کرنا ہے۔

میرا ماضی گواہ ہے کہ میں نے فوج کے ہر منفی کردار پر ہمیشہ تنقید کی ہے۔ آپ سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے کس انتہا تک جا کر اِن کے منفی کردار کی مخالفت ببانگِ دہل کی ہے۔ میرے بہت سے قریبی لوگوں کو مجھ سے گِلہ بھی ہوتا تھا کہ اتنی مخالفت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن میں نے جسے حق جانا ہے اسے بلاخوف و خطر ڈنکے کی چوٹ پر بیان بھی کیا ہے۔
لیکن اِس وقت جو میں دیکھ رہا ہوں وہ نہ تو میں درست سمجھتا ہوں اور نہ ہی میں اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ انہوں نے اگر اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے تو ہمیں اُن کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئیے۔ اگر اِس نازک گھڑی میں ہم نے انہیں اپنی نفرت اور بے جا تنقید سے Demoralise کر دیا، جیسا کہ میں ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں، تو کل جب کسی بیرونی طاقت نے ہم پر حملہ کر دیا اور اندر سے ہم انہیں demoralise کر چکے ہوں گے تو اِن کے اندر وہ will کہاں سے آئے گی کہ یہ لڑ سکیں؟ تو پھر یہ ساری محنت (ایٹمی طاقت بننا) ضائع ہو جائے گی یا نہیں؟ تو میری رائے میں تو اِس وقت اِن کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

میری اِس رائے اور خوش گمانی کو رد کرنے کے لیے لوگ انیس سو اکہتر کا حوالہ دیتے ہیں کہ بھٹو نے بھی تو یہی کام کیا تھا کہ جس کی آپ تلقین کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جیسے ہی اِن کا مورال بحال ہوا انہوں نے اسی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر اقتدار پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ تو مجھے پطرس بخاری کا ایک مضمون یاد آ جاتا ہے جس کا عنوان تھا "کُتّے"۔ وہ کہتے ہیں یار میں کتوں سے بہت ڈرتا ہوں۔ اور ہر قسم کے کتے سے ڈرتا ہوں۔ اگرچہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کتے بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں لیکن میں بھونکنے والے کتوں سے بھی ڈرتا ہوں کہ کیا معلوم یہ کمبخت کب بھونکنا بند کر کے کاٹنا شروع کر دیں۔ تو اب جن کے ہاتھ میں اختیار ہے وہ اگر کل کو اپنی ڈاکٹرائن تبدیل کر لیں تو اُس کا تو ہمیں نہیں پتہ لیکن یاد رکھیں کہ ہم اُس شے کے مکلف ہیں جو ہمیں لمحۂ موجود میں نظر آ رہی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں، اگرچہ کہ غلاموں کی ہی طرح زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ہمیں کسی نا کسی درجے میں کچھ آزادی بھی میسر ہے۔ کسی اپنے کی غلامی اور کسی پرائے کی غلامی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ میں آپ کو سمجھانے کے لیے ایک extreme کی مثال بیان کر دیتا ہوں۔ یزید ایک بادشاہ تھا۔ اُس دور کو سامنے رکھیں تو بادشاہ اور اُس کی رعایا کے درمیان تعلق کی نوعیت آقا اور غلام کی ہوتی تھی۔ بادشاہ اپنے کسی عمل کے لیے عوام کو جواب دہ نہیں ہوتا تھا۔ اُس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک کو شہید کر دیا۔ کیا اس قتلِ ناحق پر کسی نے اُس کا ہاتھ روکا؟ اگرچہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بغاوت وقت کے حکمران کے خلاف تھی لیکن اسے ریاست کے خلاف بغاوت قرار دیا گیا کیونکہ ریاست بادشاہ کی ملکیت سمجھی جاتی تھی اور بادشاہ کو Sovereign تصور کیا جاتا تھا۔ اس لیے بادشاہ کے خلاف بغاوت کو ریاست کے خلاف بغاوت سمجھا گیا۔ لیکن عوام کی سطح پر جب بھی دو فریقوں کے درمیان کوئی باہمی تنازع ہو جاتا تو اُس کا فیصلہ شریعت کے مطابق کیا جاتا۔ بادشاہ نے شریعت کو اپنے لیے ساقط کر دیا تھا لیکن لوگوں کو تو کسی نا کسی حد تک اپنے انفرادی معاملات میں شریعت پر عمل پیرا ہونے کی آزادی میسر تھی۔ یزید کے معاملے میں ملوکیت داخلی تھی۔ یعنی غلامی اپنوں میں سے ہی کسی ایک تھی۔ اس کے بعد کولونیل دور آیا تو اپنے ساتھ جبر والی ملوکیت لایا۔ اب آپ کے اوپر ایک غیر حکمران آن بیٹھا۔ جو ہم میں سے نہیں تھا۔ اب اگر دو فریقوں میں باہمی تنازع پیدا ہوتا تو اسلامی شریعت کی بجائے اس خارجی حکمران کی شریعت کے تحت فیصلہ ہوتا۔ برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود بھی ہمارے ملک میں آج تک برطانوی قوانین نافذ ہیں اور فیصلے انہیں کے مطابق ہوتے ہیں۔ یزید اگرچہ قابلِ حوالہ یا قابلِ تقلید شخصیت نہیں لیکن میں نے اس کی مثال محض یہ فرق سمجھانے کے لیے دی ہے کہ اپنوں میں سے کسی کی غلامی اور غیر کی غلامی میں کیا فرق ہے۔

اِسی طرح یہ بات سمجھ لیں کہ آج آپ کو جو کچھ بھی آزادی حاصل ہے تو بہرحال ہمارے یہ حکمران ہم میں سے ہی ہیں۔ اِن کی جگہ پر جب کوئی غیر مسلم آ کر بیٹھ جائے گا تو جتنی آزادی آج ہمیں حاصل ہے یہ بھی باقی نہیں رہے گی۔ آج ہم بیٹھ کر جتنی آزادی سے کچھ باتیں کر لیتے ہیں تو اگر یہاں کوئی سِکھ تھانیدار لگا ہوتا تو شاید اتنا بھی ممکن نہ ہوتا۔ تو اِن چیزوں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنا کوئی دانشمندی تو نہیں۔
بہرحال اِس وقت یہ کام کوئی نہیں کر رہا۔ ابھی تک میں نے بھی صحیح معنوں میں شروع نہیں کیا۔ لیکن آپ کو indication دے رہا ہوں کہ اِس وقت ہماری فوج کو تھوڑی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ ابنائے وطن کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بھئی مزید اِن فوجیوں کو سنگسار نہ کرو۔ وہ اگر کہہ رہے ہیں کہ بھئی ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ہم اپنی غلطیوں کو اپنے خون سے دھونے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہماری مجبوری ہے کہ ہم وقتی طور پر اُن کی اس بات کو درست مانیں اور ان سے سوئے ظن کی بجائے حسن ظن وابستہ کریں۔ اور اِس موقع پر اگر آپ اُن کی سپورٹ نہیں کر سکتے تو کم از کم اُن کی نامعقول اور مخاصمانہ مخالفت کر کے انہیں اتنا demoralise نہ کریں کہ کل کو وہ لڑنے کے قابل بھی نہ رہیں۔

واپس کریں