دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہے۔
No image پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں معزولی کے لگ بھگ آٹھ ماہ بعد 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت سنا دی تھی۔ اس فیصلہ سے پہلے اور اس پر عملدرآمد تک، ذوالفقار علی بھٹو کی جان بخشی کے لیے کی گئی عالمی کوششوں اور انھیں نہ ماننے کے لیے جنرل ضیاالحق کے حربوں سمیت، بہت کچھ ایسا ہوا جو اس وقت پوشیدہ رہا۔

مگر 1977 سے 1980 تک کے دور کی اب افشا کی جانے والی امریکی سفارتی دستاویزات سے اس کا پتا چلتا ہے۔ امریکی قانون کے تحت یہ دستاویزات امریکی محکمہ خارجہ کے دفترِتاریخ نے شائع کی ہیں۔

ہماری آج کی کہانی ان ہی ڈی کلاسیفائیڈ یا افشا کیے گئے ان ٹیلی گرامز، ایرگرامز(خطوط) اور پیغامات پر مبنی ہے جن کا تبادلہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور امریکی حکومت کے درمیان پاکستانی تاریخ کے اہم ترین برسوں 1977 سے 1980 کے دوران ہوا جس میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر جان بخشی کی کوششوں اور پاکستان کے حالات کا تذکرہ کیا گیا۔

ان سفارتی دستاویز کے مطابق تین ستمبر 1977 کو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر آرتھر ولیم ہمل جونیئر نے امریکی محکمہ خارجہ کو ایک ٹیلی گرام لکھا کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق نے ان سے کہا کہ وہ انھیں اور امریکی حکومت کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کراچی میں گذشتہ رات گرفتاری کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ گرفتاری پولیس نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر کی جو ذوالفقار علی بھٹو اور دیگرافراد کے خلاف قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔ دیگر افراد پہلے ہی گرفتار ہو چکے ہیں مگر ’بھٹو اہم فرد لگتے ہیں۔‘
اسی روز سفارتخانے نے ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اطلاع دی کہ ’ذوالفقار علی بھٹو کو کراچی میں تین ستمبر کی صبح سابق رکن قومی اسمبلی اور ان کے سابق حامی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔‘

ٹیلی گرام کے مطابق ’جنرل ضیا الحق نے کہا کہ ’ریاست‘ کا مفاد اس میں شامل ہے، لیکن ’ہم نے نجی کیس کو عدالتوں میں چلنے دینے کو ترجیح دی۔‘ انھوں نے کہا کہ انھیں ذاتی طور پر ملک میں اس گرفتاری پر زیادہ ردعمل کی توقع نہیں۔‘

امریکی سفیر ہمل نے 18 ستمبر 1977 کے ٹیلی گرام میں لکھا: ’17 ستمبر کو ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ 18 اکتوبر کے انتخابات سے پہلے سنایا جائے گا۔ ضیاالحق نے کہا کہ اقتدار سنبھالنے پر ان کا عہد تھا کہ وہ منصفانہ اور غیر جانبدار ہوں گے۔ تاہم، ’آزاد صحافت اور آزاد عدلیہ‘ نے بھٹو حکومت کی غلط کاریوں کو ثابت کرتے ہوئے ’سنگین بے ضابطگیوں‘ کا پتا لگایا ہے۔‘

’جنرل ضیا نے استدلال کیا کہ تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے ساڑھے پانچ سالوں کے دوران ’تمام سول اداروں کو منظم طریقے سے تباہ کیا گیا،‘عوامی فنڈز، ذاتی عیش و عشرت‘ کے لیے استعمال کیے گئے، تمام اختلافی عناصر کو کچلنے کے لیے قدیم، غیر انسانی اور وحشیانہ طریقے استعمال کیے گئے۔ مارچ کے انتخابات میں ’بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی‘ اور پاکستان پیپلز پارٹی ’اخلاقی یا قانونی جواز‘ کے بغیر اقتدار میں رہی۔‘

ہمل نے ٹیلی گرام میں مزید لکھا کہ ’ضیاالحق نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا مطالبہ تھا کہ وہ انتخابات سے پہلے منصفانہ ٹرائل چاہتے ہیں اور انھوں (ضیا) نے ان کی بات ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔ نتیجتاً، ان کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے گا جو انتخابات سے قبل فیصلہ سنائے گی۔ ضیاالحق نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سول عدالت کے مقدمات میں مداخلت نہیں کریں گے اور انتخابات 18 اکتوبر کو ہوں گے۔‘

ہمل نے لکھا: ’ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور جنرل ضیا کا ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے اعلان کے ساتھ مارشل لا انتظامیہ اور سابق وزیر اعظم بھٹو کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی نے فیصلہ کن موڑ لے لیا ہے۔ پچھلے ہفتے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ انتظامیہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی حمایت سے خوفزدہ ہے اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان میں کبھی دوبارہ کوئی عوامی عہدہ حاصل نہ کر سکیں۔‘
ہمل نے ٹیلی گرام میں لکھا کہ ’ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لا کے ہتھکنڈوں کے ذریعے سے سیاسی منظرنامے سے ہٹانے سے ’شہادت‘ کی طویل المیعاد وراثت جنم لے سکتی ہے اور متنازع طریقوں سے انھیں ہٹانے کے عمل میں منتخب ہونے والی کسی بھی حکومت کی قانونی حیثیت متنازع ہوسکتی ہے۔‘

اس سے پہلے 15 ستمبر 1977 کے ٹیلی گرام میں ایک خصوصی عدالت کے قیام کی اطلاع دی گئی تھی جس کا مقصد 1973 کے ہائی ٹریزن ایکٹ کے تحت مقدمات سننا تھا۔ اسی ٹیلی گرام میں ضیاالحق کے ایک اردو زبان کے اخبار کو دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیا گیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’بھٹو حکومت گسٹاپو طرز کی پولیس سٹیٹ تھی۔‘

ستائس ستمبر 1977 کو ہمل نے رپورٹ کیا کہ ضیاالحق نے 27 ستمبر کی ملاقات میں انھیں بتایا کہ ایسے شواہد ہیں کہ سوویت یونین پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔

بیورو آف انٹیلی جنس اینڈ ریسرچ نے واشنگٹن سے 11 جنوری 1978 میں انسانی حقوق میں پیشرفت اور پسپائی کے عنوان سے ایک پیپر جاری کیا جس میں لکھا تھا:

’پچھلے سال فوجی بغاوت کے بعد مارشل لا لگنے کے باوجود انسانی حقوق کے حوالے سے ضیاالحق حکومت کا ریکارڈ بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے، پریس پہلے کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے، عدلیہ کی آزادی کو تقویت ملی ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو عدالتی کارروائی میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

تاہم جنرل ضیا الحق کے مطابق، اکتوبر 1977 میں طے شدہ انتخابات سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بدعنوانی اور قتل کے مقدمات کی تکمیل تک ملتوی کر دیے گئے۔‘

اٹھارہ مارچ 1978 کو صبح 8.20 بجے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشتاق حسین نے بنچ کے دیگر ججز، جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس گلباز خان اور جسٹس ایم ایچ۔ قریشی کے ساتھ نواب محمد احمد خان قصوری کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

ذوالفقار علی بھٹو، میاں محمد عباس، رانا افتخار احمد، ارشد اقبال اور غلام مصطفیٰ کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ سلطانی گواہوں مسعود محمود اور غلام حسین کو معاف کر دیا گیا۔ 410 صفحات کا یہ فیصلہ جج آفتاب حسین نے لکھا اور بنچ کے باقی ارکان نے اس سے اتفاق کیا۔
اس میں کہا گیا تھا کہ بڑے ملزم نے اپنے سیاسی مخالفین سے بدلہ لینے کے لیے ایف ایس ایف (فیڈرل سکیورٹی فورس) کو آلہ کار بنا دیا۔ ذوالفقار بھٹو پر 25000 روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا جو انھیں مقتول کے بیٹے احمد رضا قصوری کو ادا کرنا تھا۔

امریکی سفارتخانے نے اطلاع دی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے پانچ دن ہیں۔ امریکی سفیر کی اس تجویز پر کہ امریکہ کو عوامی طور پر اعلان کرنا چاہیے کہ اس نے پاکستانی حکومت کو احتجاجی مراسلہ دیا ہے۔

نو مارچ کو محکمہ خارجہ نے مجوزہ متن سے اتفاق کیا جو ذوالفقار بھٹو کو سزائے موت سنائے جانے کی صورت میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ہمل کو حکومت پاکستان کو دینا تھا۔

ہمل نے محکمہ خارجہ کو ٹیلی گرام بھیجا کہ انھوں نے 19 مارچ 1978 کو پاکستان کے سیکریٹری خارجہ شاہ نواز کو جنرل ضیا کے لیے یہ پیغام دیا: ’مسٹر بھٹو کی پھانسی کو امریکہ میں بہت بری طرح دیکھا جائے گا اور یہ امریکہ کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس ردعمل کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے ممکنہ منفی ردعمل کو بھی ذہن میں رکھیں گے، کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے سزائے موت کو برقرار رکھنے کی صورت میں آپ مطلوبہ ایگزیکٹیو معافی پر غور کریں گے۔‘

’شاہ نواز نے کہا کہ وہ اسے فوری طور پر جنرل ضیا تک پہنچائیں گے۔ شاہ نواز نے اس بات کی نشاندہی کرنے کے علاوہ تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل سمیت عدالتی طریقہ کار پر اثر انداز ہونا ایگزیکٹو کے اختیار سے باہر ہے۔ میں نے جواب دیا کہ مراسلہ کے متن میں اس نکتے کی واضح تفہیم کی نشاندہی کی گئی ہے، اور ایگزیکٹو معافی کا حوالہ دیا ہے۔‘

’مجھے اور میرے عملے سے دوست ممالک کے سفیر پوچھ رہے ہیں کہ امریکہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ کئی سفیروں کو امید ہے کہ ان کی حکومتیں جان بخشی کی حمایت کریں گی۔ مغربی یورپی گروپ نے آج ایک میٹنگ میں اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا، جس میں زیادہ تر سفیروں نے پاکستان کو نجی، غیر اعلانیہ مراسلہ بھیجنے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

ہمل نے لکھا کہ ’عوامی جمہوریہ چین کے سفیر نے کل رات مجھے بتایا کہ ان کے خیال میں سزائے موت مناسب نہیں۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا چین اس سوچ کو پاکستان تک پہنچائے گا۔ اگر سعودی اور ایرانی ایسا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ سب سے زیادہ موثر ہوں گے۔‘
تیس اپریل 1978 کو امریکی سفیر ہمل نے سابق نائب صدر راک فیلر کی جنرل ضیا سے ملاقات سے متعلق ٹیلی گرام میں لکھا:

’ضیا الحق نے اس ملاقات میں ذوالفقار بھٹو پر تنقید میں زیادہ وقت گزارا اور انھیں موجودہ معاشی خرابیوں اور پاکستان میں زیادہ تر سیاسی مسائل کا بنیادی ذمہ دار قرار دیا۔ ضیاالحق نے کہا کہ ان کے پاس ’ثبوت‘ ہیں کہ ذوالفقار بھٹو نے گزشتہ جون میں لیبیا کے ذریعہ سوویت یونین کو قریبی تعاون کی پیشکش کی تھی۔ ضیا الحق نے زور دے کر کہا کہ یہ ان کی پانچ جولائی کو حکومت سنبھالنے کی وجوہات میں سے ایک تھی۔‘
ہمل نے مزید تبصرہ کیا کہ ’جیسا کہ میں نے راک فیلر کو بتایا، ہم جانتے ہیں کہ ذوالفقار بھٹو کو سوویت یونین کے تعاون کی پیشکشیں یہاں سوویت سفیر نے براہ راست کی تھیں لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ذوالفقاربھٹو سنجیدگی سے سوویت آپشن پر غور کر رہے تھے یا یہ ضیا الحق کی بغاوت کی ایک وجہ تھی۔`

اکیس مئی، 1978 کی سہ پہر بیجنگ میں چینی نائب وزیراعظم ڈینگ شیاؤ پنگ اور امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر زبگنیو برزینسکی کی ملاقات ہوئی تھی۔

اس ملاقات کی یادداشت کے مطابق پاکستان کے معاملات پر بات کرتے ہوئے چینی رہنما نے کہا: ’اب آپ کے جنرل ضیا الحق کی حکومت سے کافی اچھے تعلقات ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ آپ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کریں۔ ہمیں آپ کے خلاف ماضی میں اس حوالے سے شکایتیں تھیں۔ پچھلی امریکی انتظامیہ نے پاکستان کو نظر انداز کیا لیکن انڈیا پر زیادہ توجہ دی۔ پاکستان میں ایک اور اہم سوال ہے اور وہ ہے ذوالفقار بھٹو کا سوال۔ بھٹو کو سزائے موت پر ہم نے اکثر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اور اب دنیا میں یہ چرچا ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو سزائے موت دینے میں امریکہ شاید جنرل ضیا الحق کی حمایت کر رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سچ ہے یا نہیں۔

برزینسکی: یہ سچ نہیں ہے۔

ڈینگ: ٹھیک ہے۔ میرے خیال میں اس میں بھی کچھ سیاست ہے۔ کیا آپ نے جنرل ضیا سے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا؟

برزینسکی: ہاں، خاموشی سے۔ ہمیں لگتا ہے کہ عوامی دباؤ مدد گار نہیں ہو گا۔

ڈینگ: آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم بھی اسی طرح کر رہے ہیں۔ اگر اس مسئلے سے مناسب طریقے سے نہیں نمٹا گیا تو پاکستان میں دائمی خلفشار اور ہنگامہ آرائی ہو گی۔

برزینسکی: ہم اس سلسلے میں ایران اور سعودی عرب سے بھی رابطے میں رہے ہیں، دونوں ہی پاکستان کو پیسے دیتے ہیں اور انھیں بھٹو کی قسمت میں دلچسپی ہے۔ کیا آپ بھٹو کو سیاسی پناہ دینے کے لیے تیار ہوں گے؟

ڈینگ: اگر وہ آنا چاہیں تو ہم انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

برزینسکی: وہ وہی وِلا استعمال کر سکتے ہیں جو [کمبوڈیا کے جلاوطن رہ نما] سیہانوک نے کیا تھا!

ڈینگ: میرے خیال میں ان کے لیے ایک بہتر جگہ ہے۔‘

واشنگٹن میں 13 جون، 1978 کو صدر کارٹر اور انڈین وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ملاقات کی یادداشت کے مطابق ڈیسائی نے کہا کہ ’وہ نہیں سمجھتے کہ ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دی جائے گی۔

صدر کارٹر نے کہا کہ ہم نے اپنی تشویش کا اظہار نجی طور پر کیا ہے۔

ڈیسائی نے کہا کہ پاکستان کسی بھی انڈین بیان کو غلط سمجھے گا۔ وہ غلط فہمی کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ پاکستانی ہمیشہ انڈیا کے کہنے کے برعکس کرتا ہے۔ یہ ان کے وجود کا اصول ہے۔‘
15 ستمبر 1978 کے ٹیلی گرام میں ضیاالحق کے صدر بننے کی خبر دی گئی: ’خدشہ ہے کہ وہ ایوب خان کی طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔ ضیاالحق کا صدر چوہدری [فضل الہٰی] کا استعفیٰ قبول کرنا اور صدارت سنبھالنا (جو 16 ستمبر، پانچ بجے شیڈول ہے) حیرت کا باعث نہیں۔ کچھ مہینوں سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ صدر چوہدری فضل الہی، جن کی میعاد باضابطہ طور پر 14 اگست 1978 کو ختم ہو گئی تھی، مستعفی ہو جائیں گے۔ چوہدری فضل الہی 74 سالہ بوڑھے ہیں، ان کی صحت اکثر خراب رہتی ہے، صدر کے عہدے سے تھک چکے ہیں، اور ذوالفقار بھٹو کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے، جو وقت آنے پر ان کے نام پر لیا جا سکتا ہے۔‘

ٹیلی گرام میں آگے جا کر لکھا گیا: ’ذوالفقار بھٹو کی قسمت کے فیصلے میں ضیا الحق اپنا آخری ستر پوش کھو دیں گے۔ اگر سپریم کورٹ ذوالفقار بھٹو کے جرم اور موت کی سزا کو برقرار رکھتی ہے، تو ضیاالحق کو اپنے نام پر زندگی اور موت کے حتمی فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ ان کا نیا عہدہ ہی اپیل کا آخری مقام ہے۔‘

پندرہ نومبر 1978 کو برزینسکی کو لکھے گئے میمورنڈم میں، ان کے عملے کے رکن ٹامس تھورنٹن نے ضیاالحق کو واشنگٹن مدعو کرنے کے خلاف دلائل دیے۔ دورہ ملتوی کرنے کی بنیاد کے طور پر ذوالقفار بھٹو کی ممکنہ پھانسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، تھورٹن نے استدلال کیا: ’اگر ضیا الحق مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو شاید ہمیں ان سے دور رہنا ہو گا۔ اگر وہ طوفان سے اچھی طرح نمٹ لیتے ہیں، تو ہمیں بہتر طور پر پتا چل جائے گا کہ پاکستان کس طرف جا رہا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔ بائیں ہاتھ کے حاشیے میں ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ میں، برزینسکی نے اس سے اتفاق کیا۔‘

تھورنٹن نے یکم جنوری سے 14 جنوری 1979 کے دوران پاکستان، انڈیا اور افغانستان کا دورہ کیا۔ انھوں نے اس دورے کی یادداشت میں برزینسکی کو لکھا کہ ’پاکستان معطل حرکت پذیری کی حالت میں ہے جو بھٹو کی قسمت کے فیصلہ کا انتظار کر رہا ہے۔ انتخابات اس موسم خزاں میں ہونے والے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کو شک ہے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں اور اگر ہو بھی گئے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ ایسی حکومت کی تشکیل کریں جو پاکستان کے بیرونی اور ملکی مسائل سے نمٹ سکے۔‘ برزینسکی نے اوپری دائیں کونے میں لکھا: دل چسپ، افسردہ کن۔‘
29 جنوری 1979 کو واشنگٹن میں عوامی جمہوریہ چین کے نائب وزیر اعظم ڈینگ شیاؤ پنگ کے اعزاز میں امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس نے ظہرانہ دیا۔

یادداشت کے مطابق اس ظہرانہ سے پہلے ہونے والی ملاقات میں چینی رہنما نے کہا:

’پاکستان میں ذوالقفار علی بھٹو کو سزائے موت سے بچانا ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں ان کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف تھا۔ انھوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ اور یورپ سے مدد حاصل کرنے میں ناکامی نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نئی قیادت بھی اس سمت میں آگے بڑھے۔

سیکرٹری وینس نے کہا کہ ہماری پالیسی پاکستان کی مدد کرنا ہے، اور اس کی عکاسی اس سال کے بجٹ میں ہوتی ہے۔ لیکن مدد کے لیے پاکستان کو ہمارے قانون کے تحت چلنا ہو گا۔ جب تک پاکستان نیوکلیئر ری پروسیسنگ میں مصروف ہے ہمارا قانون ہمیں معاشی اور فوجی امداد دینے سے روکے گا۔‘

ڈینگ نے کہا: ’ہم اس پر کچھ کام کر سکتے ہیں۔‘ جس کے جواب میں سیکرٹری وینس نے کہا کہ ’یہ بہت اچھا ہو گا۔‘

یادداشت کے مطابق سکریٹری وینس نے ذوالفقار علی بھٹو کے موضوع کی طرف پلٹتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ نے جنرل ضیا پر زور دیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد جان بخشی کر دیں حالانکہ ذوالفقار بھٹو نے امریکہ پر کڑی تنقید کی تھی۔‘

چینی نائب وزیراعظم ڈینگ نے کہا کہ ’بھٹو جذباتی آدمی ہیں، بعض اوقات وہ چینیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وزیر دفاع ہیرالڈ براؤن نے یہ کہتے ہوئے بات چیت کا اختتام کیا کہ اگر دوسرے ممالک میں ان تمام لوگوں کو پھانسی دے دی جائے جنھوں نے امریکہ پر تنقید کی ہو تو دنیا میں بہت کم لوگ رہ جائیں گے۔‘

مورخ سیٹھ اے روٹرمیل لکھتے ہیں کہ چونکہ کارٹر ضیا الحق کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے مارشل لا کے نفاذ یا ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کو جائز قرار نہیں دینا چاہتے تھے، اس لیے کارٹر اور ضیا الحق کے درمیان خطوط کا تبادلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان میں سفارتخانے کو 31 اکتوبر، 1978 کو صدر کارٹر کا صدر ضیاالحق کے لیے ہنگامی پیغام بھیجا جسے سفیر کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا امکان ظاہر ہونے کی صورت میں استعمال کرنا تھا۔

اس خط میں لکھا تھا کہ ’اب جب کہ عدالتی عمل مکمل ہو چکا ہے، مجھے لگتا ہے کہ اب آپ سے رحم کرنے کی درخواست کرنا بے جا نہیں جو ہم اللہ کی رحمت اور شفقت سے سیکھتے ہیں۔ یہ معاملہ واضح طور پر آپ کا اندرونی ہے، لیکن میں ایک دوست کی حیثیت سے یہ کہنے کا پابند ہوں کہ آپ کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کی جان بچانے کے فیصلے کو امریکہ میں، ہمارے مذاہب کی اقدار کے مطابق، جان بخشی، جرأت اور مدبرانہ عمل کے طور پر دیکھا جائے گا۔ امریکہ اور دنیا بھر میں پاکستان کے بہت سے دوستوں کی طرف سے اس کا خیر مقدم اور تعریف کی جائے گی۔‘

ٹیلی گرام کے اوپری دائیں کونے میں، ایک نامعلوم ہاتھ نے لکھا:’سفیر ہمل نے یہ پیغام چھ فروری 1979 کو دیا۔‘

اسلام آباد سے چھ فروری 1979 کے ٹیلی گرام میں، ہمل نے رپورٹ کیا کہ ’فوری طور پر یہ معلوم ہونے کے بعد کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے ذوالفقار بھٹو کیس پر اپیل خارج کر دی ہے، میں نے کارٹر کی معافی کی اپیل پہنچانے کے لیے ضیاالحق سے ملاقات کا وقت مانگا۔ چونکہ سیکرٹری شاہ نواز، ہمل کو یہ یقین دہانی نہیں کرا سکے کہ ضیاالحق کے ساتھ ملاقات ممکن ہے، ہمل نے یہ پیغام سکیرٹری شاہ نواز کو دے دیا، جنھوں نے کہا کہ ’وہ یقینی بنائیں گے یہ پیغام ضیاالحق کو فوری طور پر مل جائے۔‘نئی دہلی میں امریکی سفارتخانے سے 15 فروری 1979 کو محکمہ خارجہ کو ٹیلی گرام میں انڈین وزیراعظم ڈیسائی سے امریکی سفیرکی ملاقات کا احوال لکھا گیا۔

’انڈین وزیر اعظم نے پوچھا کہ میرے خیال میں ضیاالحق، ذوالفقار بھٹو کے ساتھ کیا کریں گے۔ جب میں نے کہا کہ معلومات کی بنا پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جائے گی تو انھوں نے کہا کہ وہ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے ضیاالحق کو ان کی جان بخشی کے لیے خط لکھا تھا (یہاں لوگوں کو اس کا علم نہیں) اور امید ظاہر کی کہ ہم ضیاالحق کو قائل کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کرتے رہیں گے۔ وزیر اعظم کے خیال میں ضیاالحق بنیادی طور پر سیدھے اور نیک نیت ہیں۔‘

پاکستان میں سفارت خانے نے محکمہ خارجہ کو 24 مارچ 1979 کے ٹیلی گرام میں اطلاع دی کہ ’سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی نظرثانی کی درخواست خارج کر دی ہے۔ عدالتی فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس اکرم نے صرف اتنا کہا کہ ہم سب متفق ہیں کہ درخواست خارج کی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار نے اپنے موکل سے ملنے کی اجازت مانگی اور عدالت نے انھیں حکومت سے اجازت لینے کو کہا۔ نظرثانی کی درخواست کو پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں خارج کرنے کے بعد عدالت برخاست کر دی گئی۔‘

ٹیلی گرام میں بتایا گیا کہ ’اب صرف صدر ضیاالحق ہی سے رحم کی اپیل کی جا سکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی رحم کی درخواست سات دنوں کے اندر جمع کرائی جانی چاہیے۔ تاہم، صدر ضیا نے ماضی میں بار بار اپنے سامنے پہلے سے موجود اپیلوں کا حوالہ دیا ہے، اور وہ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ان پر غور کیا گیا اور انھیں مسترد کر دیا گیا ہے۔‘

ٹیلی گرام میں لکھا گیا کہ ’صدر ضیا الحق نے اپنا ذہن بنا لیا ہے، ایسا نہیں لگتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جان بخشی ہو گی۔ بلکہ تمام اشارے یہ ہیں کہ صدر ضیا سزا پر عمل درآمد کریں گے، شاید اگلے چند دنوں میں۔‘

چوبیس مارچ کو اسلام آباد سے ٹیلی گرام میں، امریکی سفارت خانے نے صدر ضیا کے اس اعلان کی اطلاع دی جو انھوں نے 23 مارچ کو سالانہ فوجی پریڈ میں تقریر کے دوران کیا تھا کہ ’قومی اور صوبائی انتخابات 17 نومبر کو ہوں گے۔ اور یہ بھی کہ صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات کے درمیان 'توازن' کے لیے 1973 کے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔‘
اس خبر کے جواب میں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی گئی ہے، محکمہ خارجہ نے 24 مارچ کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو ہدایت کی کہ ’ہماری اس امید کے اعادہ کے لیے کسی بھی مناسب موقع سے فائدہ اٹھائیں کہ ذوالفقار بھٹو کو انسانی بنیادوں پر معافی دے دی جائے گی۔‘انتیس مارچ کو کارٹر نے ضیاالحق سے ذوالفقار علی بھٹو کی جان بچانے کی آخری اپیل کی۔ کارٹر کے خط کی صدر ضیا کے دفتر پہنچنے کی تصدیق کے بعد، کانسٹیبل نے تبصرہ کیا: ’میں تسلیم کرتا ہوں کہ امریکہ، اگر پوچھا جائے تو، یہ تسلیم کرنا چاہے گا کہ صدر کارٹر نے مزید اپیل کی ہے، مجھے امید ہے کہ ہم اس وقت رضاکارانہ طور پر ایسی معلومات دینے سے بچ سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کے حامی اور عام لوگ ان کی پھانسی کی امریکی مخالفت سے بخوبی واقف ہیں۔ حکومت پاکستان ہمارے مؤقف کے سابقہ بیانات کے پیش نظر ہماری اپیل کے اس اعادہ پر ناراضی ظاہر کرے گی، اور اگر اب ہم اسے عام کرتے ہیں تو یہ ناراضی غیر ضروری طور پر بڑھ جائے گی۔‘

پاکستان کے سابق صدر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔

معاون برائے قومی سلامتی امور برزینسکی نے صدر کارٹر کو اسی روز کی یادداشت میں لکھا:

’ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان: آج صبح بھٹو کی پھانسی کے حکومتی اعلان کے تناظر میں، اسلام آباد، راولپنڈی کا علاقہ عام طور پر پرسکون ہے۔ کراچی اور پشاور بھی خاموش ہیں جہاں لوگ پڑھے لکھے افراد کے گرد جمع ہیں جو پھانسی کی اخباری خبروں کو بلند آواز سے پڑھ رہے ہیں۔ لاہور میں کاروں پر پتھراؤ کرنے والا ایک چھوٹا سا گروہ جلد ہی منتشر ہو گیا اور شہر میں خاموشی چھا گئی۔ حکومت کے اعلان میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سزا پانے والے چار دیگر افراد کی قسمت کا ذکر نہیں کیا گیا۔‘

اس یادداشت کے اوپری دائیں کونے میں کارٹر کے مختصر دستخط ہیں۔

بشکریہ : بی بی سی
واپس کریں