دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سر آئینہ:۔سرور حسین گلگتی۔ڈائریکٹر کشمیر سنٹر راولپنڈی
No image (سر آئینہ:۔سرور حسین گلگتی۔ڈائریکٹر کشمیر سنٹر راولپنڈی)ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ قومی سانحا ت اور قتل و غارت گری کے دل ہلا دینے والے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جو لائی 1931ء کے المناک واقعے سے لے کر زندہ انسانوں کی کھالیں کھینچ کر درختوں سے لٹکانے اور 6 نومبر 1947 کو جموں کے مسلمانوں کے قتل عام جیسی ظلم اورجبر کی داستانیں دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
6 نومبر 1947ء کو جموں کے لاکھوں مسلمانوں کو بحفاظت پاکستان لے جانے کے بہانے ٹرکوں میں لاد کر پہاڑی دروں میں گھات لگا کے بیٹھے انتہا پسندوں نے وحشیانہ اندا ز میں شہید کیا۔ عورتوں کے پیٹ چاک کئے گئے۔ بچوں کو قتل کیا گیا۔ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ مسلمانوں کی سینکڑوں بستیوں کو تحت و تاراج کیا گیا۔ 5 لاکھ مسلمان پاکستان کی طرف نکلے تھے بمشکل 2 لاکھ مسلمان پاکستان پہنچ سکے۔ 3 لاکھ مسلمانوں کو راستے میں بے دردی سے شہید کیا گیا۔ تاریح کا جائزہ لیا جائے تو اسی طرح کسی ایک دن میں لاکھوں لوگوں کے قتل عام کی مثال دنیا کی تاریح میں نہیں ملتی۔ آر ایس ایس، ہندو مہا سبھا اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے مسلمانوں کا خون بہانے کے لئے گھناؤ نے حربے استعما ل کئے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی خود نوشت'' آتش چنار ''میں لکھا ہے کہ 5 نومبر کو جموں میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ مسلمان پولیس لائن میں جمع ہو جائیں اور وہاں سے انہیں پاکستان بھیجا جائے گا۔ مسلمان بچوں اور عورتوں کے ساتھ پولیس لائن میں جمع ہوئے انہیں ٹرکوں میں لاد کر لے جایا گیااور ایک پہاڑی کے قریب اتارا گیا۔ جہاں ہندو درندوں نے جوان کشمیری لڑکیوں کو الگ کیا اور باقی بچنے والے جوان، بچوں اوربوڑھوں کو چند لمحوں میں گولیوں سے بھون کر رکھ دیا۔ ان شرمناک واقعات میں مہاراجہ کی فوج سمیت پٹیالہ اور سکھ رجمنٹ کے فوجیوں کا کردار انتہائی گھنا ؤنارہا۔ 6 نومبر کو شہداء جموں کی عظیم قربانی پر معروف مورخ جان سٹیفن نے لکھا ہے ''کہ اس دوران جموں میں 5 لاکھ لوگ شہید ہوئے''۔'' لندن ٹائمز نے 10 اکتوبر 1948 ء کی اشاعت میں دو لاکھ بتیس ہزار شہادتیں بتائی ہیں ''۔

بھارتی فوج اور ہندوں انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ اکتوبر 1947 سے کر دیا تھا۔ دیہاتوں میں قتل عام اور خون ریزی کے زیادہ تر واقعات پیش آنے پر مسلمان عزتیں اور جانیں بچانے کے لئے شہروں کا رخ کر رہے تھے۔ مگر مسلمانوں کے قتل کی سازش پہلے ہی تیار کی گی تھی اس لئے مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا۔ جاپان کے سپریم کورٹ نے 6 اگست1945ء کو ہیرو شیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے متاثرہ جنوبی کوریاکے 40 شہریوں کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ جموں کے مسلمانوں کے قتل عام پر مہذب دنیا آج بھی بھارت پر فرد جرم عائد سزا دے سکتی ہے۔ مگر اس پر عمل درآمد کون کروائے گا۔ اقوام متحدہ 70 سالوں سے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکا ہے۔ کشمیری مسلمانوں پر ظلم کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیری عوام بھارتی تسلط سے آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کے لئے اپنے جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔مو جودہ تحریک آزادی کشمیر شہدا ئے جموں کی قربانیوں کا تسلسل ہے۔ تحریک اب چو تھی نسل کو منتقل ہو چکی ہے۔ 2016 میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں نوجوان آزادی کا نعرہ لگا کے میدان میں اتر آئے ہیں۔ کالجوں اور سکولوں کے طلباء بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے سرگرم ہو چکے ہیں۔ہا تھوں میں پاکستان کا پرچم تھامے اپنی منزل کا تعین کر دیا ہے۔ بھارت فوجی قوت کے استعمال کے باوجود پسپا ہورہا ہے۔

بھارت کے سابق سیاست دانوں،سفارتکاروں اور دانشوروں کی طرف سے بھارتی حکومت پر طاقت کا استعمال ختم کرکے مذاکرات شروع کرنے کے لئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بھارت کی حکومت کے جانب سے انٹیلی جنس ایجنسی آئی بی کے سابق سربراہ کے کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے نامزدگی کو آل پارٹیز حریت کانفرنس اور کشمیری قیادت نے مسترد کر دیا ہے۔ کشمیری قیادت نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم بند کرنے اور پاکستان سمیت مسئلہ کشمیر کے تمام سٹیک ہولڈز کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی موجودہ طاقتوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کر کھڑا کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایٹمی فلش پوائنٹ بن چکا ہے۔کشمیر میں وحشیانہ مظالم سے توجہ ہٹا نے کے لئے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج کی مسلسل فائرنگ اور شہریوں کی شہادت سے کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔علاقہ میں برھتی ہو ئی کشیدگی نہ صرف خطے بلکہ پو ری دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری کوخطے میں جا ری کشیدگی میں کمی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
واپس کریں