دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اصل ’’گیم‘‘کہاں جا کر فلاپ ہوئی
No image پنجاب میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے۔ پاکستان بھر میں سب سے بڑی پولیس یعنی پنجاب پولیس ، انٹیلی جنس اور عمران خان کی سیکیورٹی کی زمہ داری بھی عمران خان ہی کی حکومت کے ماتحت ہے۔مبینہ قاتل زندہ پکڑا گیا ہے اور وقوعے میں استعمال ہونے والا پستول اس سے برآمد کرنے کے بعد پنجاب پولیس نے اس سے صرف آدھے گھنٹے میں اقبالی بیان لینے کے بعد میڈیا پر ریلیز بھی کر دیا گیا ہے۔
اس قسم کے حملے کے بعد نہائت ضروری ہوتا ہے کہ شکوک و شبہات سے بچنے اور عدالت میں پیش کرنے کے لئے مضروب کو فوری ابتدائی طبی امداد دئے جانے کے بعد اگلی تفصیلی میڈیکل رپورٹ بشمول ایکسرے، ایم آر آئی اور دیگر لیبارٹری ٹیسٹ صرف اور صرف مجاز سرکاری ہسپتال سے کروائے جائیں۔
نہائت عجیب بات ہے کہ فوری طور پر گجرانوالہ اور لاہور جیسے بڑے شہر میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی اور دیگر نہایت قدیم و تجربہ کار میڈیکل کالجز کے پروفیسروں ، گنگا رام ہسپتال ، میو ہسپتال ، سروسز ہسپتال اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال کی عالمی معیار کی جدید ترین مشینوں اور آپریشن تھیٹرز کو چھوڑ کر عمران خان صاحب گولی کے زخموں کا علاج اور ٹانگوں کی ایم آر آئی کے لئے شوکت خانم کینسر ٹریٹمنٹ ہسپتال میں چلے گئے جس کا اس قسم کے علاج سے دور دراز سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔
شوکت خانم ہسپتال میں ڈاکٹر فیصل سلطان کی سربراہی میں عمران خان صاحب کی ٹانگوں کی ایم آر آئی کرنے کے بعد رپورٹ جاری کی گئی ہے کہ"" ٹانگوں میں ابھی تک گولیوں کے کچھ حصے پھنسے ہوئے ہیں """حیران کن بات یہ ہے کہ آج کل استعمال ہونے والے اسلحہ کی گولی کی ساخت بین الاقوامی قانون کے تحت ایسی رکھی جاتی ہے کہ یا تو گولی آر پار گزر جائے ورنہ فاصلہ زیادہ ہونے/ رفتار کم ہو جانے کی صورت میں وہ پوری گولی مضروب کے جسم میں پھنس جائے تاکہ بعد میں بذریعہ سرجری اسے جسم سے باہر نکال دیا جائے کیونکہ پھٹ جانے والی گولیوں کا استعمال انسانوں کے علاؤہ جانوروں کے شکار میں بھی ممنوع ہے
لگتا یوں ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے ہی سپورٹر کی ہوائی فائرنگ سے خوفزدہ ہو کر کنٹینر کی چھت پر بیٹھے ہوئے لوگ جب کنٹینر کے نچلے حصے میں بھاگے تو بھگدڑ میں لوہے کی سیڑھی اور دروازوں سے ٹکرا کر زخمی ہو گئے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ گولی فیصل جاوید کا صرف منہ چوم کر آگے نکل جائے اور ہڈی یا گوشت کو نقصان ہی نہ پہچے۔ایک پستول سے 6 گولیاں چلی جس سے 14 بندے زخمی ہوئے یعنی ہر گولی سے ڈھائی بندے زخمی ہوئے اور ایک شخص کی جان گئی ۔
یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔
ہرحال محاذ آرائی اور ملکی وحدت کو مزید نقصان سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ صرف شوکت خانم ہسپتال کی ایم آر آئی سکین وغیرہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے عمران خان صاحب کی زخموں کی نوعیت کا اندازہ لگانے کے لئے کسی بین الاقوامی شہرت یافتہ ہسپتال سے ان کے تمام ٹیسٹ بشمول ایم آر آئی سکین دوبارہ کروائے جائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ عمران خان صاحب پر ممنوعہ گریڈ کی گولی چلائی گئی ہے کہ جس کے کچھ حصے ان کے گوشت میں پھنس کر خطرناک ثابت ہوں گے
بقول عمران خان شوکت خانم ہسپتال ، ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈاکٹر راشدہ تو ویسے بھی لندن جانے کے لئے نوازا شریف کے پلیٹ لیٹس کی غلط رپورٹس بنا کر قابل اعتبار نہیں رہے۔
‏ان کی آپس میں کوآرڈینیشن اور ٹائمنگ میچ نہیں ہو سکی کیونکہ حملہ ہوتے ساتھ ہی جو بندہ گرفتار ہوا وہ ایجنسیوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے چُک کر فوراً میڈیا کے سامنے پیش کر دیا جس نے سارا کچا چِٹھا کھول کر اپنا جرم قبول کر لیا
جبکہ ان کا پلان تھا کہ پنجاب پولیس اُس حملہ آور کو اپنے ساتھ نامعلوم مقام پر لے جائے گی پھر پرویز الہٰی اور عمران خان اپنے مرضی کا بندہ یا بیانات دلوا کر ملک میں انتشار پھیلائیں گے اور بلیک میلنگ جیسے اوچھے ہتھکنڈے اپنائیں گے
اور اگر آپ دیکھیں کہ جتنے بھی عمرانڈو اینکرز، صحافی یا یوٹیوبرز ہیں وہ سب ایک ہی بات پر کیوں ماتم کر رہے ہیں کہ حملہ آور میڈیا پر کیسے آ گیا اور کون لے کر آیا ۔ساتھ ساتھ PTI کے سوشل میڈیائی نمونے پرویز الہٰی کو برا بھلا کہ رہے ہیں کہ گیم سنبھال نہیں سکا ۔
اوپر سے جیسے ہی جیو نیوز پر چند منٹ کیلئے ٹِکر چلے کہ حملہ آور تو PTI کے عالمگیر خان کا گارڈ ہے تو فوراً عالمگیر خان بوکھلا گئے اور جلد بازی میں ویڈیو بیان جاری کر دیا کہ میرا گارڈ بے قصور ہے ۔
‏اسے کہتے ہیں شکاری کا اپنے ہی جال میں پھنس جانا اوپر سے جتنے بھی زخمیوں کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں سارے خون سے لت پت اور زخم صاف دکھائے دے رہے ہیں ماسوائے خان کے جسے PTI کے بقول 4 گولیاں لگی ہیں مگر نہ کوئی خون نہ نشان نہ دھبہ اُلٹا بھنگڑے ڈالتا ہوا اسپتال سے گاڑی میں بیٹھ کر گھر گیا ہے ۔
دوسری طرف فیصل آباد میں رانا ثنااللہ کے گھر حملہ جبکہ کور کمانڈر پشاور کے گھر کے سامنے احتجاج اور اسد عمر کے زریعے میجر جنرل فیصل، شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے
‏یہ سب کڑیاں ملائیں اور دیکھیں کہ یہ فتنہ اقتدار کی ہوس کیلئے کس حد تک جا سکتا ہے ۔
واپس کریں