دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میرٹ اور آرمی چیف کی تقرری۔رحمت اللہ کنڈی
No image آجکل آرمی چیف کی تقرری ایک متنازع صورت حال اختیار کرگئ ہے۔ میں عمران کے معیار سے بالکل اتفاق نہیں کرتا لیکن آرمی چیف کے لۓ ایک مستقل معیار طے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ماضی میں ذاتی پسند ناپسند کو معیار بنایا گیا جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا ہوگا۔ میرٹ کی باتیں بہت ہورہی ہیں لیکن میرٹ کی بنیاد کیا ہونی چاہیۓ اس پر بہت کم بات ہورہی ہے۔ میرٹ کی بنیاد صر ف پیش وارنہ مہارت اور سینڈ ہرسٹ یا کسی بڑے غیر ملکی ادارے سے فارغ التحصیل ہونا قطعی نہیں ہونا جاہیے۔

آرمی چیف کے لۓ خاندانی اور سیاسی پس منظر میرٹ کا بنیادی جز ہونا چاہیۓ۔خاندانی اور غیرت مند ہو۔ جو بڑے فیصلے خود کرسکے اور ماتحت افسروں سے مرعوب اور بلیک میل نہ ہوسکے۔ ضیا اور مشرف کا یہ المیہ تھا۔ ماضی میں بے نامی اور کمزور خاندان سے تعلق رکھنے والوں کو اس خیال سے چیف بنایا گیا کہ وہ زیادہ تابعدار ثابت ہونگے۔ لیکن انہوں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ایوب خان۔ یحیی۔ جنرل موسی۔ ضیاالحق اور مشرف کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ ایسے پس منظر والے لوگوں میں خود فیصلہ کرنے کی قوت نہیں ہوتی۔ اور وہ اپنے چالاک۔ تیز ترار ۔خاندانی اور سیاسی پس منظر والے ماتحت افسروں سے بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ بیرونی طاقتوں کے ہتھکنڈوں کے شکار بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ایوب ۔ ضیا اور مشرف کی اس کمزوری کی وجہ سے ملک ایک امریکی کالونی بن گیا اور جمہوری کلچر پروان نہ چڑھ سکی۔

آرمی چیف کے لۓ پہلا معیار۔ خاندانی سیاسی پس منظر ہونا بہت ضروری ہونا چاہیے۔ دوسری انتظامی صلاحیت اور جلد فیصلہ کرنے کی قوت۔ تیسری برصغیر ھند وپاک ۔مشرق وسطی۔مشرق بعید۔ وسطی ایشیا۔اور اسلامی اور یورپ کی تاریخ اور کلچر سے مکمل آگہی ہونی چاہیۓ اور چوتھی ترجیح مختلف کورسسز اور ٹریننگ ۔ سب سے پہلا کام آرمی چیف کا یہ ہونا چاہیۓ۔ کے مسلح افواج اور سویلین کا ملاپ اور آمنا سامنا کم سے کم ہو۔ اس کے لۓ ضروری کے فوجی چھاؤنیوں کو شہری آبادی سے دور رکھا جائے۔ سویلین معاملات ۔ کاروبار۔ ٹھیکے اور دوسرے وسائل پر فوج کا کنٹرول بتدریج ختم کیا جاۓ۔

وزیر اعظم اور کابینہ کو چاہیۓ۔ کہ نۓ چیف کے تقرری سے پہلے اس کے لۓ کچھ ایسے اہداف مقرر کریں۔ جس سے فوج کی سویلین معاملات میں مداخلت کم ہوں ۔ اور ان اہداف کا وزارت داخلہ اور کابینہ باقاعدہ جائزہ لیتے رہیں۔ ایکسٹینشن کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیۓ۔ کسی غیر معمولی صورت حال میں اگر ایکسٹیشن کی ضرورت پڑے تو اسکا فیصلہ پچھلے اہداف پر عمل درآمد کے نتیجے پر ہونا چاہیۓ۔ اس سارے مشق کا مطلب آرمی چیف کو پارلیمنٹ اور سویلین حکومت کے طابع لانا ہونا چاہیۓ۔ موجودہ حالات نے ہمیں اس پر عمل درآمد کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین

واپس کریں