دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تحریک عدم اعتماد: پاکستان کا سیاسی بحران ملک کے معاشی و انتظامی امور کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟
No image پاکستان میں حزب اختلاف کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد ملک کے سیاسی درجہِ حرارت میں شدت آئی ہے۔

حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اس سیاسی میچ میں کون جیتے گا، اس سے قطع نظر، ماہرین کا خیال ہے کہ اس تناؤ کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے سیاسی عدم استحکام نے ایک جانب سٹاک مارکیٹوں کو شدید متاثر کیا ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر بھی اس سے متاثر نظر آتی ہے تاہم اس ساری صورتحال کا سب سے منفی اثر ملک کی معاشی فیصلہ سازی کے شعبے پر پڑ رہا ہے جو اس وقت گو مگو کا شکار ہے۔

اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے سینیئر صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں کہ حکومت کی توجہ معاشی فیصلوں سے ہٹی ہوئی ہے اور اگر ذیلی سطح پر کوئی فیصلے ہو بھی رہے ہیں تو ان کی منظوری دینے والے سب سے بڑے فورم وفاقی کابینہ کا اجلاس پچھلے کئی ہفتوں سے نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے ان فیصلوں کے فعال ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے۔

ادھر پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ساتویں نظر ثانی جائزے کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کو وزیراعظم پاکستان کی جانب سے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے شعبوں میں دی جانے والی ریلیف پر تحفظات ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی بحران کے باعث آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں مشکلات درپیش آ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام خطرے میں پڑ گیا تو پاکستان کے لیے معاشی مشکلات بڑھ جائیں گی۔

اس کے علاوہ پاکستان میں کاروباری حلقے بھی اس صورتحال پر فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ایم ڈی نے حال ہی میں کہا تھا کہ ایک بڑی ٹیکنالوجی کمپنی نے سیاسی بحران کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں داخلے کے منصوبے کو فی الحال مؤخر کر دیا ہے۔

ادھر وفاقی وزارت خزانہ اس تاثر کو مسترد کرتی ہے کہ ملک میں معاشی پالیسی کے فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے یا آئی ایم ایف سے مذاکرات میں مشکلات آرہی ہیں۔ وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق ملک کے معاشی فیصلے اپنے معمول کے مطابق لیے جا رہے ہیں۔سیاسی بحران معاشی معاملات کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟
پاکستان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس گذشتہ تین ہفتوں میں تین بار ملتوی ہو چکا ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن میں کام کرنے والے ایک حکومتی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابینہ کا اجلاس بار بار ملتوی ہونے کی وجہ سے چین پاکستان راہداری سے جڑے منصوبوں گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور گوادر فرینڈ شپ ہسپتال کے لیے خام مال کو اینٹی ڈمپنگ قانون سے مستثنیٰ قرار دینے کا اہم فیصلہ تعطل کا شکار ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس فیصلے کی سمری کئی ہفتے پہلے منظوری کے لیے بھیجی جا چکی تھی۔

وفاقی کابینہ کے گذشتہ معطل ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں 29 نکات تھے جن میں سے کچھ بہت فوری نوعیت کے تھے تاہم ان کی منظوری فی الحال تعطل کا شکار ہے جس میں سے ایک آرمز لائسنز کی اہم پالیسی بھی شامل تھی۔

اسی طرح حکومت کی جانب سے مڈ ٹرم بجٹ ریویو کا کام بھی تعطل کا شکار ہے جو عموماً مارچ میں شروع میں ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ حکومت کے احساس پروگرام کے کچھ اقدامات بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس سے منظوری کے منتظر ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈیویلمپنٹ پروگرام کے لیے متعلقہ وزارتوں کے ساتھ ہونے والے نظر ثانی اجلاس بھی گذشتہ چند ہفتوں میں نہیں ہوئے۔

پاکستان کے تیل کے شعبے میں ریفائنری پالیسی بھی بظاہر پس پشت چلی گئی ہے۔ ایک تیل کمپنی کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان کے لیے جو مشکلات ہیں، اس کے لیے اہم تھا کہ پاکستان کی ریفائنری پالیسی کو جلد منظور کیا جاتا تاہم سیاسی بحران کی وجہ سے حکومت کی توجہ اب اس کی بجائے سیاسی معاملات پر مرکوز ہے۔

صحافی خلیق کیانی کے مطابق اس وقت وزارتوں میں بہت کم وزیر نظر آرہے ہیں کیونکہ سب کے سب اس وقت سیاسی مسائل کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے ان وزارتوں کی بھی فیصلہ سازی متاثر ہو رہی ہے۔

خلیق کیانی کا دعویٰ ہے کہ بیورو کریسی نے بھی ‘دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت وزیروں کا اپنی وزارتوں میں اثر و رسوخ نہیں۔

‘بیوروکریٹ کسی وزیر کی جانب سے کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کو بھی لٹکا رہے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ وزرا عدم اعتماد کے بعد رہیں گے یا نئے وزیر ہوں گے۔‘

پاکستان میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ سیاسی بحران یقینی طور پر ملک کے معاشی فیصلوں اور گورننس کے معاملات کو متاثر کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ملک میں عموماً پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت مالی سال کی آخری سہ ماہی کے شروع یعنی مارچ کے مہینے میں زیادہ فنڈز ریلیز ہوتے ہیں تاہم اس وقت ایسی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسی بحران نے حکومت کو ایسا پھنسایا ہوا ہے کہ وہ اس جانب توجہ دینے سے قاصر ہے اور انفراسٹرکچر منصوبوں پر کام کی رفتار میں اس قدر اضافہ نہیں دیکھا جا رہا، جیسے کہ ماضی میں اس سہ ماہی میں دیکھنے میں آتا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں بیوروکریسی بھی انتظار کی پالیسی اختیار کر لیتی ہے اور فیصلوں پر فوری عمل درآمد سے گریز کرتی ہے۔سیاسی بحران اور آئی ایم ایف مذاکرات
پاکستان آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے پروگرام کے ساتویں نظر ثانی جائزے کے سلسلے میں مذاکرات کر رہا ہے۔

پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف بھی اس وقت ملک میں موجودہ سیاسی بحران کو بغور دیکھ رہا ہے اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے وہ عدم اعتماد تحریک کے نتیجے کا انتظار کرے گا۔

ان کے مطابق مذاکرات تو جاری رہیں گے تاہم پاکستان کے لیے اگلی قسط جاری کرنے یا پروگرام کو ختم یا باقی رکھنے کا فیصلہ اس بحران کے بعد ہی ہو گا۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ موجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ حکومت کی ساری توجہ تو سیاسی معاملات پر ہے اور آئی ایم ایف حکومت کی جانب سے دیے جانے والے ریلیف پیکج پر بات کرنا چاہتا ہے۔

انھوں نے کہا اگر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پاکستان کو معاشی طور پر بہت بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو درآمدات پر قابو پانے کے لیے منصوبہ بنانا ہو گا جس کی جانب موجودہ حکومت سیاسی مسائل کی وجہ سے توجہ نہیں دے پا رہی۔
بشکریہ: بی بی سی
واپس کریں