دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شہباز شریف کی مائنس پی ٹی آئی قومی حکومت کی تجویز۔
No image ’پاکستان کے آئین میں قومی حکومت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ قومی حکومت درحقیقت ایک سیاسی اصطلاح ہے، یہ کوئی قانونی یا دستوری اصطلاح نہیں ہے۔‘

پاکستان میں آئینی اور پارلیمانی اُمور کے ماہر احمد بلال محبوب نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ’قومی حکومت‘ کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر اس کی سیاسی تشریح کے مطابق چلا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک ایسی حکومت بنائی جائے جسے پوری قوم کی حمایت حاصل ہو تاکہ درپیش مسائل کے حل کے لیے بڑے اور بنیادی فیصلے کیے جا سکیں۔

یاد رہے کہ دو روز قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف نے تجویز دی تھی کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف کو شامل کیے بغیر پانچ سال کے لیے قومی حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک قومی حکومت بنانی ہو گی جو پانچ سال مل کر، سر جوڑ کر، ملکی مسائل حل کرے۔ اس کے بعد ایک سٹیج سیٹ ہو جائے گا۔‘

لیکن شہباز شریف کی تجویز کے مطابق اس قومی حکومت میں پاکستان تحریکِ انصاف شامل نہیں ہو گی، تو پھر یہ قومی حکومت کیسے ہوئی؟اس سوال کے جواب میں احمد بلال نے کہا کہ ’قومی حکومت کی اصطلاح جو سیاسی لغت میں استعمال کی جاتی ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر جتنی بھی جماعتیں ہیں وہ ساری قومی حکومت کا حصہ ہوتی ہیں۔ تو پھر ایک بڑی جماعت پی ٹی آئی جس کی اس وقت حکومت ہے اور بعد میں بھی وہ اگر اپوزیشن میں ہو گی تو ایک بڑی جماعت ہو گی۔‘

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اس جماعت کو جب آپ کہتے ہیں کہ وہ اس قومی حکومت میں شامل نہیں ہو گی تو پھر یہ تو قومی حکومت نہیں ہوئی۔ ’ایسی حکومت کو آپ زیادہ سے زیادہ ایک مخلوط حکومت کہہ سکتے ہیں۔‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قومی حکومت کے قیام کی تجویز پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی ہے۔ آج سے تقربباً تین دہائی قبل نواب زادہ نصراللہ خان نے بھی یہی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم پاکستان میں قومی حکومت ایک مبہم سا تصور رہا ہے جس کی پوری طرح وضاحت نہیں ہو سکی ہے۔آئین اور قانون کے ماہر سابق جج طارق محمود کا بھی کہنا ہے کہ قومی حکومت کی کوئی گنجائش پاکستان کے آئین میں موجود نہیں ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے شاید قومی حکومت کی روایتی تشریح کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات کی۔

’اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو ظاہر ہے آئین کے مطابق وزیرِ اعظم اپنے عہدے پر نہیں رہ سکیں گے۔ صدر اسمبلی سے کہیں گے کہ اپنا نیا قائد منتخب کر لو، جو اگلے ڈیڑھ برس کے لیے ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کی اس وقت جو صورتحال ہے اس میں وہ کون ہو گا جو ڈیڑھ سال کے لیے وزیرِ اعظم بنے اور عوام کے سامنے غیر مقبول ہو اور عوام کے غصے کا سامنے کرے۔ کیونکہ اگلے ڈیڑھ سال میں تو معاشی صورتحال اور دیگر معاملات بہتر نہیں ہو سکیں گے۔‘

جسٹس طارق محمود کے مطابق عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے سامنے دو راستے ہوں گے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں آپس میں طے کر لیں کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد جب صدر ان سے کہیں کہ نیا قائد ایوان منتخب کریں تو وہ کسی کو منتخب ہی نہ کریں اور صدر کو مجبوراً نئے انتخابات کا اعلان کرنا پڑے۔’دوسرا راستہ یہ ہے کہ اعتماد کا ووٹ لے کر شہباز شریف وزیرِ اعظم بنیں اور فوراً ہی صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیں تاکہ اگلے انتخابات کا اعلان ہو جائے۔‘وہ کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں قومی حکومت سے شہباز شریف کا مطلب یہ ہے کہ نئے انتخابات کے بعد تمام جماعتیں جن میں مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور دیگر جماعتیں مل کر حکومت بنائیں۔

’یعنی عمران خان کی پی ٹی آئی کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور ملک میں اتفاقِ رائے سے مسائل حل کریں۔‘

دوسری جانب احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انھیں شہباز شریف کی طرف سے ایسی تجویز کا آنا بہت عجیب لگا۔

’ذاتی حیثیت تو کچھ نہیں ہوتی، وہ اپنی پارٹی کے صدر ہیں اور ایک ایسی پارٹی کے صدر ہیں جو اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی ہے یعنی جو مستقبل میں حکومت بھی بنا سکتی ہے۔‘

تاہم احمد بلال محبوب شہباز شریف کے بیان کا ایک مثبت پہلو بھی دیکھتے ہیں۔

’اس میں جو مثبت اور بامعنی بات ہے وہ یہ ہے کہ شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس اگر اتنی اکثریت ہو جائے کہ ہم اکیلے بھی حکومت بنا سکتے ہوں، ہم تب بھی چاہیں گے کہ ہم دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں تاکہ اتفاقِ رائے وسیع ہو۔‘

لیکن اُن کے مطابق اس کے لیے دوسری جماعتوں کا حکومت میں شامل ہونا ضروری نہیں ہے۔’جمہوری کلچر کا تقاضا تو یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے اور کوشش کی جائے کہ ان کو ساتھ ملا کر قانون سازی کریں اور پالیسیاں بنائیں۔ ان کا حکومت میں شامل ہونا یا نہ ہونا اتنی اہمیت نہیں رکھتا۔‘

احمد بلال محبوب کے مطابق اس کی بڑی مثال 18ویں ترمیم ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس کے پاس تو سادہ اکثریت بھی نہیں تھی لیکن انھوں نے وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا کیا اور کئی اہم اور اختلافی معاملات طے ہو گئے جن میں صوبائی خودمختاری بھی شامل ہے، لہٰذا قومی حکومت کے بجائے اس طرح کا اتفاقِ رائے پیدا کرنا زیادہ ضروری ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’سٹیج سیٹ ہو جائے گا‘ سے شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کے معیشت سمیت جو بڑے بڑے مسائل ہیں ان کے حل کے لیے سٹرکچرل تبدیلیوں کی ضرورت ہے، ان کے بارے میں کُھل کر فیصلے کیے جا سکیں جو اب تک نہیں کیے جا سکے۔

’تو غالباً وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کے معاملات پر اتفاقِ رائے ہو جائے لیکن یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ بات ہے۔ اگر یہ سب کرنا ہی ہے تو یہ بغیر قومی حکومت کے بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں محنت لگے گی، مہینے لگیں گے۔‘

’ملک میں جب بحران ہوتا ہے تو قومی حکومت کی بات سامنے آتی ہے لیکن ماضی قریب میں ایسا نہیں ہوا ہے۔ البتہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی بات زیادہ ہوتی رہی ہے کہ ٹیکنوکریٹس یا ماہرین کی ایسی حکومت بن جائے جو سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر فیصلے کر سکے۔‘
احمد بلال محبوب کے مطابق یہ اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ طریقہ ہو سکتا ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ سیاستدان تو اختلاف ہی کرتے رہتے ہیں اور انھیں مختلف شعبوں کے بارے میں زیادہ سمجھ بھی نہیں ہوتی اور ان میں صلاحیت بھی ضرورت سے کم ہوتی ہے۔ تو شاید اسٹیبلشمنٹ کے خیال میں ’سٹیج سیٹ‘ کرنے کے لیے ٹیکنوکریٹس کی حکومت چاہیے تاکہ ملک کی معیشت اور دیگر شعبے درست ہو سکیں۔

’لیکن یہ بھی ایک غیر حقیقی سوچ ہے کیونکہ سیاستدانوں کے بغیر استحکام کا آنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ ٹیکنیکل لوگ اگر یہ کر سکتے تو دنیا میں سیاسی نظام ہوتے ہی نہیں، اتفاقِ رائے سیاستدان ہی پیدا کر سکتے ہیں۔‘احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ جس طرح کا ماحول اس وقت ہے، جس طرح کی تقسیم ہے جو سیاستدانوں خاص طور پر عمران خان صاحب نے پیدا کر رکھی ہے اس میں تو اکھٹے بیٹھنا ہی ناممکن ہے، اتفاقِ رائے تو دور کی بات ہے۔

’یہ ماحول تو ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اور اُن کی جماعت نے جان بوجھ کر پیدا کیا ہوا ہے۔ اگر چاہیں تو مشکل ترین باتوں پر بھی اتفاقِ رائے ہو جاتا ہے جس کی ایک بہترین مثال 18ویں ترمیم ہے۔ لوگوں کو انگیج کرنا پڑتا ہے، اس میں وقت لگتا ہے یہ سب ایک بٹن دبانے سے نہیں ہو سکتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اصل حل قومی حکومت نہیں بلکہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ہے۔

’پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ صوبائی خودمختاری کا تنازع تھا۔ 18ویں ترمیم نے اس مسئلے کو حل کیا ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان میں اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکتا ہے اور مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ یہی دیرپا حل ہے۔ مصنوعی طریقے سے جو حل پیش کیے جاتے ہیں وہ دیر تک نہیں چلتے۔‘

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شہباز شریف نے قومی حکومت کی بات کی ہو۔ گذشتہ برس ستمبر میں بھی وہ کراچی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کر چکے ہیں۔

اس وقت بھی خود انھوں نے اور ان کی جماعت نے اسے ان کی ذاتی رائے قرار دیا تھا۔ اس سے لگتا ہے کہ ان کے ذہن میں جو بھی خیال ہے وہ اچانک ہی نہیں آیا ہے۔ب
شکریہ بی بی سی


واپس کریں