دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ناراض حکومتی اراکین: پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟
No image اسی بارے میں سینیئر تجزیہ کار اور صحافی سلیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے خلاف کوئی عدم اعتماد آ نہیں سکتی اور اگر آئے تو کامیاب نہیں ہو سکتی مگر اپوزیشن کے اس اقدام نے ان کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔

سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے گذشتہ 48 گھنٹوں میں اپنے بیانات کا رُخ بدلا اور ضمیر فروشی اور ہارس ٹریڈنگ کرنے کے الزامات عائد کیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے وزرا اور مشیروں نے بھی دھمکی آمیز زبان‘ استعمال کرنا شروع کر دی۔

انھوں نے کہا کہ بظاہر ’اس قسم کے بیانات نے ان حکومتی اراکین کو یہ اقدام اٹھانے پر مجبور کیا جو بنیادی طور پر یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے ارکان یا اتحادی جماعتیں جو حکومت سے علیحدہ ہونے کا سوچ رہے ہیں اپوزیشن نے اپنے اس اقدام سے ان کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ ہمارے پاس عددی برتری ہے اور وہ جلد اپنا فیصلہ کر لیں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی اپوزیشن کی عددی برتری سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آج یہ تو ثابت ہوا کہ اپوزیشن کے پاس گنتی پوری ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں اور یہ کام وہ بغیر اتحادیوں کے بھی کر سکتے ہیں۔ اب اگر اتحادی ان سے ملتے ہیں تو پھر یہ ایک رسمی کارروائی ہی رہ جائے گی۔‘

تاہم سہیل وڑائچ یہ بھی سمجھتے ہیں اب سیاست میں ایک نہایت منفی ہلچل ہو گی اور شورش اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ کسی تیسرے فریق کو بیچ میں آنا پڑے گا۔

سہیل وڑائچ کے مطابق ’پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں یہ کام آئین یا قانون کے مطابق نہیں ہو سکتا، اس لیے ڈر ہے کہ یہ معاملہ لڑائی جھگڑے اور شورش تک جائے گا اور اس میں کسی تیسرے فریق کی نوبت اور مداخلت کا موقع ملے گا اور یہ تیسرا فریق عدالت بھی ہو سکتی ہے اور فوج بھی۔‘ان کے مطابق فوج اُس وقت دخل دے سکتی ہے جب حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے اور سیاسی جماعتوں کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے کہ سب قانون کے مطابق ہو۔

سلیم بخاری نے ان اراکین کے ٹی وی پر چلنے والے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سب نے پیسے لینے کے الزامات کو رد کیا البتہ ان سب نے مشترکہ طور پر یہ کہا کہ انھیں عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف ہے اور خراب طرز حکمرانی کے باعث اپنے حلقوں میں شرمندگی ہے اس لیے وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ منظر نامہ کسی اچھی صورتحال کی جانب اشارہ نہیں کرتا اور اگر حکومت کی جارحیت پسندی اسی طرح جاری رہی جیسے انھوں نے پارلیمنٹ لاجز میں کیا اور اب بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی ایجنسیوں کو ایم این ایز کے پیچھے لگا دیا ہے، تو یہ پاکستان کی سیاست میں اچھا شگون نہیں۔
حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
ایک سوال پر سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کی عددی برتری ظاہر کرنے کے بعد تین چار آپشنز کی بات ہوتی رہی ہے جس میں ایک یہ کہ وہ ملک میں ایمرجنسی لگا دیں گے جس کے بعد ہر چیز رُک جائے گی لیکن ایسا کرنے کی صورت میں ایمرجنسی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر پہلی ہی سماعت پر یہ فیصلہ واپس ہو جائے گا۔‘

دوسری طرف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اسمبلیاں توڑنے کا آپشن پہلے ہی ختم ہو گیا اور آخری آپشن ان کے پاس یہ ہے کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں اور نئے انتخابات کا اعلان کروا دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں صورتوں میں عمران خان کا نقصان ہونے جا رہا ہے۔سہیل وڑائچ نے بھی اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک کا مقابلہ جلسوں سے نہیں ہو سکتا۔

’اگر جلسوں سے مقابلہ کرنا ہے تو صرف جلسے ہی کریں اور یہ واضح ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کو عوامی مقبولیت حاصل نہیں۔ یہ ہم کئی ضمنی انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے عام انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو کوئی خاص کامیابی کا امکان نہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’اس لیے عمران خان کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اسی قانونی طریقے سے اس تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں جو آئین کے مطابق ہے۔‘

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے اس اقدام نے ’ٹرننگ پوائنٹ‘ پیدا کیا اور حکومت کے پاس اس وقت سوائے اس کے کہ وہ اپنی پارٹی کے معاملات کو دیکھے اور صورتحال درست کرے اور کوئی چارہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی آخری کوشش کرے، جو ان کے تحفظات ہیں ان کو دور کرنے کی ضمانت دے اور اگر صرف تقریروں اور سخت زبان سے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی تو حالات اس سے بھی زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔

اس سوال پر کہ یہ اراکین اس وقت سامنے کیوں آئے، سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اپوزیشن حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ کچھ دن تک جاری رہے گا۔
بشکریہ بی بی سی
واپس کریں