دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حکومت کےلیے واحد خطرہ عمران خان۔
No image بلاگ کا عنوان دیوانے کی بڑھک کے مترادف ہی محسوس ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ اس سے بہتر عنوان بہرحال موجودہ معروضی حالات میں فہم کے دائرے میں آنے سے قاصر ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان کےلیے اس وقت جو سب سے بڑا خطرہ ہے، وہ خود یعنی اُن کی اپنی ذات ہے۔

اب بھلا یہ کیوں کر ہے؟ اس کےلیے آپ کو مجموعی رویے دیکھنا ہوں گے۔ اور ان رویوں کے پس منظر اور پیش منظر، دونوں طرح کے حالات کا ادراک رکھنا ہوگا۔ بھول جائیے کہ تحریک انصاف کا منشور کیا تھا۔ کیوں کہ آپ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں میں الجھ جائیں گے اور آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔

ایسے ناقابل عمل وعدوں پر بس اتنا سوچ لیجیے کہ، نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ یہ بھی سوچ سے محو کردیجیے کہ عمران خان نے عوام کے ساتھ کیا وعدے کیے تھے۔ اس حقیقت سے بھی چشم پوشی لازم ہے کہ ادارہ جاتی اصطلاحات کے معاملے پر عمران خان نے امیدوں کے مینار کس قدر بلند کیے تھے۔ چاہے وہ الیکشن کمیشن میں اصطلاحات ہوں یا پولیس کو بہتر کرنے کا عزم۔ آپ صرف اور صرف ان کے سیاسی عزائم سامنے رکھیے۔ تمام پہلو ایک طرف اور ان کا سیاسی مخالفین کے حوالے سے رویہ مشاہدے کےلیے بطور مثال اٹھائیے۔ آپ جان جائیں گے کہ ہمارے ہینڈسم کپتان کسی ایک معاملے میں بھی عوامی توقعات کے مطابق عمل درآمد سے قاصر ہیں۔ اب ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کا راگ الاپنے سے بہتر یہ تھا کہ مفروضوں پر توقعات کے محل تعمیر کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا کہ آنگن کو سیدھا کرنے کی کم از کم عوام کو کوئی سبیل تو دکھائی جاتی۔ہم پاکستان کی ایسی سیاسی تاریخ کے گواہ ہیں جس میں میوزیکل چیئر کا کھیل جاری تھا۔ کیسے بھٹو لائے گئے اور پھر قائد عوام بنے، یہ ذہن نشین ہے۔ جونیجو کب تک جی حضوری کرتے رہے، اور کیسے ناقابل قبول ہوگئے، کھلا راز ہے۔ کیسے میاں نواز شریف پنجاب سنبھال کر مرکز پر نظر جما چکے تھے، عیاں ہے۔ پھر میاں اور بی بی کی سیاسی ریسلنگ تو آج کل کی نسل کو بھی کسی نہ کسی حد تک یاد ہے۔ میثاق جمہوریت ہوا لیکن وہ بھی تو مفادات کا ہی چکر تھا۔ پی پی آئی، ن لیگ آئی، لیکن افسوس معاملات بہتر نہ ہوئے۔ اور پھر ایک تبدیلی کی لہر بلند ہوئی۔ راقم الحروف کو بھی باقی تمام صاحبانِ فکر کی طرح امید کی کرن نظر آئی۔ سونامی تھی ایک جیسے خس و خاشاک کی طرح کرپشن اور نااہلی کو بہا لے جائے گی۔ ڈبے بھر بھر دیے گئے۔ لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ پہلی تقریر کا دعویٰ تھا کہ انتقامی کارروائی نہیں ہوگی لیکن پھر یارانِ واقفانِ حال نے دیکھا کہ اپنی نااہلی کو بھی تبدیلی سرکار انتقامی کارروائیوں کے پیچھے چھپاتی رہی۔



کھیل کی نفسیات ہے کہ آپ اپنے حریف کو جتنا اپنی گھبراہٹ کا تاثر دیں گے، وہ اتنا ہی کامیابی سے آپ کے خلاف کارکردگی دکھائے گا۔ اور ہمارا کپتان تو ورلڈ کپ جتا چکا تھا، اس سے یہ امید نہیں تھی جو یہ کر گزرا۔

فرض کیجیے تحریک عدم اعتماد کا اعلان ہوا، جمع بھی ہوئی، لیکن اس موقع پر اگر کپتان تھوڑا حوصلہ رکھتا اور میچ کو آخری گیند تک ہاتھ سے نہ جانے کا تہیہ کرلیتا تو وہ اس تحریک پر اہنے لبوں پہ ایک مسکراہٹ سجا سکتا تھا۔ جس سے چھوڑ کے جانے والے بھی سوچتے کہ بھئی یہ تو مضبوط کھڑا ہے، اور شاید وہ ارادہ ترک کردیتے۔ اب جو ترین و علیم گروپ تگڑے ہوئے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ ہمارے وزیراعظم کی واضح نظر آنے والی گھبراہٹ ہے۔

ارے صاحب، کھڑے تو اتنے مضبوط ہوں کہ ہم کہہ سکیں کہ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔ لیکن آپ تو مقابلے سے پہلے ہی واویلا مچانے لگ گئے۔ اپوزیشن کا تو چلو حق ہے کہ وہ اقتدار کی کرسی کے رسیا جو ٹھہرے۔ آپ کس خوشی میں جلسے کا اعلان کر بیٹھے؟ کیا یہ آپ نے سیاسی بلنڈر تو نہیں کردیا؟

جناب! آپ وزیراعظم ہیں، اپوزیشن لیڈر نہیں کہ ایسے اسمبلی میں اپنے ممبران پورے کرنے کے بجائے آپ نے جلسے کی کال دے دی۔ دس لاکھ بندہ آ بھی جائے تو کیا آپ 172 لوگ پورے کیے بنا بچ پائیں گے؟ آپ کی الجھن اور جھنجھلاہٹ سے تو آپ کے قریبی ساتھی تک آپ کو چھوڑنے لگے ہیں۔ آپ کو پراعتماد ہوکر اپنے حواریوں کو حوصلہ دینا چاہیے تھا لیکن آپ تو گجرات کے چوہدریوں کو نہیں سنبھال سکے جو تیل کی دھار دیکھتے ہوئے اڈاری مارنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اپنے ہینڈسم کو ہم سا مشیر ملتا تو ان کو مشورہ دیتا کہ آپ کی یہ بے چینی تو اپوزیشن کو بنا ہاتھ پاؤں ہلائے ہی مقصد کے قریب کر رہی ہے۔ لیکن مشیر تو مشورہ بھی اپنے فائدے کا دے رہے ہیں۔

اس لمحے ایک مضبوط اعصابی قوت کے مالک کپتان کی ضرورت تھی، جو چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف شور کرنے کے بجائے، ایک ایسے سمندر کی طرح ہوجاتا جس کی خاموشی سے بھی مخالفین پہ لرزا طاری ہوجاتا اور وہ جان جاتے کہ اس تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے بعد وزیراعظم کا عمل کیسا طوفان ثابت ہوگا۔ لیکن چہ معنی دارد، جیسے سب علم ہوچکا ہے کہ مسکراہٹ بھی غائب ہے، سہمے ہوئے بھی ہیں اور فیصلوں میں جلد بازی بھی عیاں ہے۔

مہنگائی، مہنگائی اور صرف مہنگائی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے گلے پڑ چکی ہے۔ اور رہی سہی کسر پٹرول کی بڑھ جانے والی قیمتوں اور غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں نے پوری کردی ہے۔ شائد خان نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہے اور اس میں پڑھ لیا ہے کہ دن گنے جاچکے ہیں۔ ورنہ کجا یہ اپوزیشن اور کجا خان کی یہ غصیلی تقریریں۔ اپوزیشن کشن کے ساتھ ٹیک لگائے لگتا ہے خان کی تقریریں انجوائے کر رہی ہے کہ حکومت کےلیے اپوزیشن سے زیادہ خطرہ تو خود خان اور خان کا رویہ بنا ہوا ہے۔
واپس کریں