دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سرمایہ داری کی نیو لبرل شکل ۔ تحریر قیس انور
No image سرمایہ داری کی نیو لبرل شکل کے غلبے سے پہلے والے جمہوری ماڈل میں 'پارلیمنٹ ' عوام کو جوابدہ ہوتے ہوئے سرمایہ داری کا تحفظ کرتی تھی اور نظر نہ آنے والی 'ایسٹبلشمنٹ '(اسٹبلشمنٹ کے مغربی معنوں میں ) کا کردار نظام کے تسلسل کی ضمانت اور 'عوامی نگرانی اور جواب دہی ' کو سرمایہ داری کے مقاصد کے اندر رکھنا ہوتا تھا - نیو لبرل سٹیج میں غیر منتخب'تھنک ٹینک' ، 'ایڈوائزری گروپ ' اور انفرادی تکنیکی ایڈوائزر وغیرہ فیصلہ سازی میں زیادہ اہمیت حاصل کرتے گئے اور پارلیمنٹ کا کردار اور عوامی نگرانی اور جواب دہی اور محدود ہوتے گئے -
ایڈوائزر عملی اور ذہنی طور پر عوامی جوابدہی سے آزاد ہوتا ہے – اس عمل کا تجزیہ بھی نسبتا مشکل ہوتا ہے کہ اس نے فیصلہ سازی میں کس کے مفادات کا تحفظ کیا ہے اور اگر اس کے مفادات کا پتہ چل بھی جائے تو پارلیمنٹرین کی نسبت اس کے لیے اس کے نتائج نسبتا کم سنگین ہوتے ہیں –یوں عوام دشمن پالیسیوں کی تشکیل اور عمل درآمد کے لیے ایڈوائزر ایک بہترین ہتھیار ہوتا ہے –
پاکستان میں نیو لبرلزم کے موجودہ فیز میں ایڈوائز روں کو بنیادی کردار دیتے ہوئے عمران خان جیسی سیلبریٹی کو حکومت کا چہرہ بنایا گیا جو سیاست دان ہوتے ہوئے بھی عملا اپنے موجودہ اور ممکنہ ڈونرز کو جواب دہ ہیں اور یو ں غیر منتخب ٹیکنیکل ایڈوائزروں کی طرح ان کے شخصی مفادات دولت مندوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں -
ضیاء دور کے بعد اپنی طاقت برقرار رکھنے کے خواہش مند طاقت ور افسران کی دریافت عمران خان اس حوالے سے ایک منفرد شخصیت ہیں کہ انہوں نے اپنی ہر ذمہ داری غیر رسمی طور پر 'آوٹ سورس ' کر رکھی ہے حتی کہ ان کی اولاد کی پرورش بھی ان کی سابقہ بیوی کی ذمہ داری ہے - اس کا ایک نتیجہ یہ ہےکہ حکومت میں رہ کر ان کے اپنے یاخاندان کے 'کتابی اثاثوں ' میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن کی مروجہ عوامی تعریف کے تحت عوام دشمن پالیسیوں سے فائدہ اٹھانے کی ذمہ داری ان پر ڈالنا آسان نہیں رہتا - اس حوالے سے وہ کسی غیر منتخب ٹیکنیکل ایڈوائز ر سے بھی زیادہ محفوظ ہیں جسے کرپٹ ثابت کرنے کے لیے مختلف سمتوں اور پہلوؤں میں اس کے تمام تر سماجی اور معاشی مفادات کا تجزیہ کرکے ثابت کرناہوتا ہے کہ اس کی فیصلہ سازی میں شخصی مفادات شامل تھے- لیکن اس کے باوجود اس کے بچ نکلنے اور کسی اور نوکری یا کاروبار میں چلے جانے اور پہلے سے زیادہ ترقی کرنے کے امکانات موجود رہتے ہیں –
عمران خان کی حکومت ہر لحاظ سے ایک عوام دشمن حکومت ہےجس کی پالیسیوں نے غربت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے - اس حکومت کے جانے کے بعد بھی اس دور میں کیے جانیوالے عوام دشمن اقدمات ریورس نہیں ہوں گے لیکن ووٹ سے آئ حکومت عوام کو اس حد تک جواب دہ ضرور ہوگی کہ نیو لبرل معیشت کو بھی عوام کے لیے کچھ کم تکلیف دہ بنائے – اس وقت حکومتی تبدیلی کے لیے شائد یہی سب سے بڑی دلیل ہے -
واپس کریں