دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بیٹی ہے یا کوئی سزا ہے؟شعیب ملک
No image دس لاکھ کا جہیز ،پانچ لاکھ کا کھانا ،گھڑی پہنائی،انگوٹھی پہنائی،مکلاوے کے دن کا کھانا،ولیمے کے دن کا ناشتہ پھر بیٹی کو رخصت کیا تو سب سسرالیوں میں کپڑے بھیجنا، ،برات کو جاتے ہوئے بھی ساتھ میں کھانا بھیجنا،بیٹی ہے یا کوئی سزا ہے؟اور یہ سب تب سے شروع ہو جاتا ہے جب منگنی کر دی جاتی ہے کبھی نند آرہی ہے کبھی جیٹھانی آرہی ہے کبھی چاچی ساس آرہی ہے کبھی ممانی ساس آ رہی ہے ٹولیاں بنا کے آتی ہیں اور بیٹی کی ماں ایک مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے سب کو اعلی سے اعلی کھانا پیش کرتی ہے اور سب کو اچھے طریقے سے ویلکم کرتی ہے باپ کا ایک ایک بال قرضے میں ڈوب جاتا ہے اور ایسے میں بیس لوگ گھیرے میں لے کے کہتے ہیں جی کتنے بندے برات میں ساتھ لے کر آئے 100یا 200 بندہ تو ہمارے اپنے رشتے دار ہی ہیں اور باپ جب گھر آتا ہے شام کو تو بیٹی سر دبانے بیٹھ جاتی ہے کہ اس باپ کا بال بال میری وجہ سے قرضے میں ہے۔خدارا ان رسموں کو ختم کر دو تاکہ ہر باپ اپنی بیٹی کو عزت کے ساتھ رخصت کر سکے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں جن کی عمریں بیس سے پینتیس سال تک کی ہیں شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ کے قریب لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ تنہا رہنے والی بیوائیں جن کی عمریں 30 سے 45 سال کی ہیں تقریباً 60 لاکھ تک کی تعداد میں موجود ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ وہ بیوائیں ہیں جن کی دوسری شادی ممکن ہے لیکن ہمارے معاشرے میں شادی کے لئے لڑکیوں کے انتخاب کا طریقہ کار کچھ اس قدر غیر انسانی اور غیر مہذب ہو چکا ہے کہ بیوائیں تو کیا تیس سال کی کنواری لڑکی بھی اس زمرے میں نہیں آتی۔ کل بیواؤں کی تعداد تقریباً چار ملین ہے جن کی کفالت کے لئے ملک میں کوئی سرکاری و غیر سرکاری مضبوط و مربوط نظام موجود نہیں۔
رشتوں میں تاخیر کی بڑی وجہ رشتے کے انتخاب کی حد سے زیادہ بڑھتی مانگیں بھی ہیں اور اور وہ مفاد پرستی و مادہ پرستی بھی جس کے آگے اب شرافت، انسانیت، ادب آداب اور تہذیب جیسے خصائص بے وقعت ہو چکے ہیں۔ اس مسئلے کا سبب معاشی و سماجی ناہمواریاں بھی ہیں اور لڑکیوں کا تعلیم کی طرف بڑھتا رحجان بھی۔ لڑکی کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ تعلیم میں اس کے ہم پلہ رشتہ دستیاب ہو سکے اور دوسری طرف لڑکے کے گھر والے بھی ذیادہ تعلیم یافتہ لڑکی کے انتخاب میں حیل و حجت سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں ذیادہ پڑھ لکھ جانے والی لڑکیاں عموماً بد دماغ اور بد مزاج ہو جاتی ہیں۔

تنہا رہنے والی غیر شادی شدہ لڑکیوں یا بیواؤں کی زندگی جس کرب اور تکلیف میں گزرتی ہے اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔ بیوہ ہو جانے پر تو اکثر خواتین کو سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ دیتے ہوئے انہیں گھر سے ہی بے دخل کر دیتے ہیں۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ایک ہی گھرانے کے افراد لڑکی کے لئے لڑکا دیکھنے نکلتے ہیں تو ان کی نفسیات کچھ اور ہوتی ہے اور جب اپنے بیٹے کا رشتہ تلاش کرتے ہیں تو یہ نفسیات یکسر بدل جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسے دوغلے پن کا شکار ہے جس میں شاید ہم سب ہی شامل ہیں۔ بیٹی سے ملازمت کروانا اسے معاشی مسائل سے نکلنے میں مدد کے مصداق سمجھا جاتا ہے۔ اور اکثر گھرانوں میں اسے ملازمت کی اجازت اس کے خواب پورے کرنے کے لئے بھی دی جاتی ہے لیکن جب اپنے بیٹے کے لئے لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے تو ملازمت پیشہ لڑکیوں کے چال چلن پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔

وسائل سے کئی گنا زیادہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اس معاشرے کے لئے ویسے ہی ایٹم بمب ہے۔ نفسیاتی بیماریوں میں الجھا یہ معاشرہ اور اس کے لوگ کیا کریں ؟ میرا تعلق سید خاندان سے ہے اور آپ جانتے ہوں گے کہ سید فیملیز اپنی لڑکیوں کے رشتے غیر سید خاندان میں نہیں کرتے چاہے لڑکیاں بوڑھی ہو جائیں۔ سادات کے ایسے بڑے گھمبیر مسائل ہیں۔ لگ بھگ ایسی ہی کہانیاں دوسری ذاتوں میں بھی ہوں گی۔جہالت،منافقت اور ہماری معاشرت نے زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔

https://www.facebook.com/BaidaarNews
واپس کریں