دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حکمرانی اور پاور کس کے پاس تھی؟عمران خان بتائیں
No image احتشام الحق شامی :عمران خان صاحب نے آج کہا ہے کہ ’’’ساڑھے3سال میں آدھی پاور بھی مل جاتی تو شیر شاہ سوری سے مقابلہ کرلیتے۔یہاں ذمہ داری میری تھی لیکن حکمرانی کسی اور کی تھی‘‘‘۔اس ملک کی تاریخ میں اگر کسی بھی سول حکمران کو اپنی مدتِ اقتدار مکمل نہیں کرنے دی گئی تو اس بات کا مطلب خان صاحب کو اقتدار میں آنے سے قبل سمجھ جانا چاہیئے تھا لیکن خان صاحب اشٹبلشمنٹ کے ہاتھوں بری طرح ٹریپ ہو گئے اور نتیجے میں اگر ایک جانب اپنی مدتِ اقتدار مکمل نہیں ک سکے تو دوسری جانب ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازع ٹہرائے۔

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اب تک 22 منتخب اور 8 غیر منتخب وزرائے اعظم اس ملک کا نظم و نسق چلانے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں - تاہم حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 22 میں سے 21 منتخب وزرائے اعظم اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے میں ناکام رہے۔ اگر لیاقت علی خان،خواجہ ناظم الدین،محمد علی بوگرہ،چوہدری محمد علی،حسین سہروردی،ابراہیم اسماعیل چندریگر،سرفیروز خان نون،نور الامین،ذوالفقار علی بھٹو،میر ظفر اللہ خان جمالی، معین قریشی، چوہدری شجاعت حسین،شوکت عزیز،راجا پرویز اشرف،شاہد خاقان عباسی،بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بطورِ وزیرِا عظم اپنے اقتدار کی مدت مکمل نہیں کر سکے تو اس کا مطلب واضع ہے کہ اس ملک میں حکمرانی کسی اور کی تھی جس کا اشارہ اب عمران خان کر رہے ہیں یعنی اشٹبلشمنٹ۔ مذکورہ بائیس منتخب اور آٹھ غیر منتخب وزرائے اعظم کو بھی مکمل اختیار یا پاور کے ساتھ حکومت نہیں کرنے دی گئی تھی۔
یہ باتیں خان صاحب کو پہلے جان لینا چاہیئے تھیں لیکن انہیں ٹریپ کرنے والوں نے انہیں ان حقائق کے جانب توجہ دینے کا موقع نہیں دیا اور وہ ڈی چوک میں مفت کی کھا کر اسپانسرڈ کنٹینر پر کھڑے ہو کر صرف ن لیگ، پی پی پی اور مولانا فضل الرحمان کو گالیاں نکالتے رہے۔

اگر ذمہ داری خان صاحب کی تھی اور حکومت کسی اور کی تو خان صاحب نواز شریف کو بزدلی کا طعنہ دینے کے بجائے بہادری دکھاتے ہوئے ان کرداروں کا نام کیوں نہیں لیتے جنہوں نے انہیں ان کی حکومت میں آدھی پاور بھی نہیں دی اور جن حکومت تھی۔
واپس کریں