دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یوکرین کی روکسیلانا جو سلطنت عثمانیہ کی حوریم سلطان بنیں
No image یہ 16ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان احمد سلیمان کے شاہی حرم کا منظر ہے جہاں ایک کنیز کی آمد نے ان کے دور اور سلطنتِ عثمانیہ پر گہرے نقوش چھوڑ دیے۔

یہ دوررس اثرات والی پیشرفت ان کے حرم اور زندگی میں روکسیلانا یعنی خرم سلطان جنھیں آج حوریم سلطان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کی آمد کے باعث تھی۔

سلطان احمد سلیمان اور حوریم سلطان کے نام سے منسوب ایک مسجد گذشتہ روز یوکرین کے شہر ماریپول میں جب 'روسی شیلنگ کا نشانہ' بنی تو اکثر افراد یہ سوال پوچھتے نظر آئے کہ روکسیلانا کون ہیں اور ان کا یوکرین سے کیا تعلق ہے۔

سلطنت عثمانیہ میں روایت تھی کے اس کے مختلف حصوں سے اغوا ہو کر اور غلام بن کر کچھ لڑکیوں کو شاہی حرم لایا جاتا تھا۔ ان میں سے اکثر کا شمار اپنے دور کی طاقتور ترین عالمی شخصیات میں ہوا۔

سلطان سلیمان کے حرم میں اس سے پہلے بھی کنیزیں تھیں اور ان کے پہلے سے بچے بھی تھے لیکن ان کے اور حوریم سلطان کے تعلق کی اس سے پہلے مثال نہیں تھی اور ایک مؤرخ کے نزدیک سلطنت عثمانیہ کے اس دور کو 'سلیمان اور روکسیلانا کا دور' بھی کہا جا سکتا ہے۔

حوریم سلطان کی سلطان سلیمان کی زندگی میں آمد کے بعد، اُس سلطنت کی تاریخ میں، جس میں ملکہ کا کوئی باقاعدہ عہدہ نہیں تھا، اس دور کا آغاز ہوتا ہے جسے مؤرخ 'عورتوں کی سلطنت' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

سنہ 1520 کے ستمبر میں جب سلطان سلیمان کو سلطنت عثمانیہ کے 10 ویں حکمران کی حیثیت سے تخت ملا تو اس کی حدود میں مشرقی بحیرۂ روم، بحیرۂ اسود اور اس کے ساحلی علاقے، آج کے مشرق وسطیٰ میں شامل زیادہ تر علاقے اور جنوب مشرقی یورپ شامل تھا۔

ان کے دور کے ابتدائی برسوں میں ہی بلغراد اور بحیرۂ روم میں رہوڈز کے اہم جزیرے کی فتوحات سے شروع ہو کر سلطنت کی حدود مغرب میں یورپ اور مشرق میں ایشیا میں مزید پھیل گئیں۔

تاہم مؤرخین کے مطابق اس وسیع و عریض سلطنت پر تقریباً 50 سال حکمرانی کرنے والے سلطان سلیمان کی زندگی کے سب سے اہم لمحات میں سے ایک روکسیلانا یعنی حوریم سلطان کا ان کی زندگی میں آنا تھا۔

مؤرخ لیسلی پیئرس سلطنت عثمانیہ میں شاہی حرم اور عورتوں کے کردار کے بارے میں اپنی کتاب 'امپیریئل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی ان دی اوٹومن ایمپائر' میں لکھتی ہیں کہ 'عثمان(پہلا سلطان) اور ان کے بیٹے اورہان کی نسلوں کے بعد بظاہر سلاطین کے سب بچے کنیز ماؤں سے پیدا ہوئے تھے۔'

لیکن 'سنہ 1520 میں حوریم سلطان کے دور کے آغاز سے لے کر 17ویں صدی کے وسط میں قُسم سلطان کی موت تک سلطنت عثمانیہ کئی اعتبار سے ان خواتین کے زیر اثر تھی جن کی طاقت کی بنیاد اس بات پر تھی کہ وہ اپنے دور میں سلطان کی پسندیدہ کنیزیں تھیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حرم سیاست کا مرکز بن گیا تھا۔ 'حرم کا مرکزی رجحان سیکس نہیں بلکہ خاندانی سیاست تھا۔'

کنیزوں کے اثر و رسوخ کے اس دور کے چار اہم کردار ہیں: خرم یا حوریم سلطان، ان کی بہو نور بانو سلطان اور پھر ان کی بہو صفیہ سلطان اور آخر میں صفیہ سلطان کے پوتے سلطان احمد اول کی پسندیدہ کنیز قُسم سلطان۔

عثمانوی تاریخ میں 'عورتوں کی سلطنت' کا یہ زمانہ یورپ میں بھی طاقتور ملکاؤں کا زمانہ تھا جن میں انگلینڈ کی الزبتھ اول اور فرانس کی کیتھرین دا میدیچی شامل ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپ کے مختلف علاقوں سے اغوا ہو کر اور 'بازار میں بِک کر' عثمانوی حرم میں پہنچنے والی ان کنیزوں کی دنیا کے دوسرے شاہی خاندانوں سے برابری کی سطح پر اور پورے شاہی ادب آداب کے ساتھ خط و کتابت بھی ہوئی۔ 'انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اول نے صفیہ سلطان (ایک اور کینز) کو سنہ 1593 میں تحفے میں اپنا پورٹریٹ بھی بھیجا تھا۔'

مؤرخ لیسلی پیئرس کی حوریم سلطان کی زندگی پر سنہ 2020 میں شائع ہونے والی کتاب 'ایمپرس آف دی ایسٹ' (مشرق کی ملکہ) کا موضوع بھی یہی ہے کہ ایک غلام لڑکی کیسے سلطنت عثمانیہ کی ملکہ بن جاتی ہے؟

انھوں نے لکھا کہ 'عثمانیوں میں ملکہ کا باقاعدہ عہدہ نہ ہونے کے باوجود روکسیلانا (حوریم سلطان) نے یہ کردار ادا کیا اور انھوں نے 16ویں صدی میں یورپ کی نامور ملکاؤں کی بھرپور انداز میں برابری کی۔'پیئرس اپنی کتاب 'ایمپرس آف دی ایسٹ' میں لکھتی ہیں کہ 15 صدی کے اختتام کے بعد سے حوریم سلطان کا آبائی علاقہ سمجھا جانے والا رتھینیا ان علاقوں میں شامل تھا جو انسانوں کی تجارت سے بری طرح متاثر تھے اور اس کے پیچھے زیادہ تر کریمیا کے تاتاریوں کا ہاتھ تھا۔

تاہم وہ اس کاروبار سے منافع کمانے والے پہلے لوگ نہیں تھے کیونکہ بحیرہ اسود کا یہ علاقہ زمانہ قدیم سے غلاموں کی تجارت کا مرکز رہا ہے اور 'سلطنت روم اور پھر بازنطینی سلطنت اور بغداد کی مشہور عباسی خلافت میں بھی اس تجارت کے خریدار رہے ہیں۔'

انھوں نے لکھا کہ اس زمانے میں انسانوں کی تجارت اور کسی کو جنگ میں قیدی بنانے میں بہت باریک فرق رہ گیا تھا۔ تاتاری اپنے آپ کو مڈل مین نہیں بلکہ جنگجو سمجھتے تھے اور کافا شہر میں غلاموں کی منڈی میں کاروبار کرنے والوں میں 'یہودی، یونانی، آرمینیائی اور کچھ اطالوی شامل تھے۔۔۔دوسرے لفظوں میں غیر مسلم۔'

پیئرس لکھتی ہیں کہ یورپ میں ان تاتاریوں کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے لیکن تنقید کرنے والوں کو 'لوگوں کے غلام بننے سے کم اور اس بات سے زیادہ مسئلہ قیدیوں کے مسلمان بنائے جانے کے امکان سے تھا۔' 'غلامی ان(تنقید کرنے والے یورپیوں) کے لیے نئی بات نھیں تھی، انھوں نے خود کبھی بحیرۂ اسود کی انسانوں کی منڈیوں سے ۔۔۔۔خریداری کرنے میں ہچکچاٹ محسوس نہیں کی تھی۔'

انھوں نے لکھا کہ کریمیا کے تاتاری لوگوں کو تجارت کے لیے قیدی بنانے کے بعد سلطنت عثمانیہ کی حدود میں کافا نامی شہر(موجودہ نام فیوڈوشیا) لاتے تھے جہاں سے سمندری سفر کے ذریعے انھیں استنبول لایا جاتا تھا۔

وہ لکھتی ہیں کہ روکسیلانا کو بھی رتھینیا سے اسی راستے سے استنبول لایا گیا ہو گا۔ کریمیا کا یہ پڑوسی علاقہ براہ راست سلطنت عثمانیہ کے زیر انتظام تھا۔ اگر ذرائع قُسم سلطان کے بیٹے سلطان ابراہیم کی پسندیدہ کنیز اور سلطان محمد چہارم کی والدہ ظورخان سلطان کے رتھینیا سے تعلق کے بارے میں درست ہیں تو یہ مشکل سفر انھوں نے بھی کیا ہو گا۔

پیئرس کے مطابق اس علاقے میں تاتاریوں کا پہلا بڑا حملہ سنہ 1468 میں ہوا ہو گا جب تقریباً 18000 مرد، عورتیں اور بچے قیدی بنائے گئے۔ اس کے بعد تقریباً ہر سال اس طرح کے حملے ہوتے رہے۔

پیئرس کے خیال میں روکسیلانا سنہ 1516 میں ہونے والے ایک حملے میں قیدی بنی ہوں گی۔ اس برس مختلف اندازوں کے مطابق پانچ سے 40 ہزار لوگ غلام بنائے گئے تھے۔ انھوں نے پولینڈ کے ایک مؤرخ کا حوالہ دیا جن کے مطابق روکسیلانا کے علاقے میں 1509 میں ایک حملہ ہوا تھا وہ شاید اس میں قیدی بنی ہوں۔

سنہ 1578 میں کریمیا کے دربار میں پولینڈ کے سفیر نے ان حملوں کی تفصیل بتائی کہ یہ موسم سرما میں ہوتے ہیں جب دریا اور جھیلیں جم چکی ہوتی ہیں اور حرکت تیزی سے ہو سکتی ہے اور 'قیدیوں کو مناسب خوراک بھی نھیں ملتی جنھیں بیڑیوں میں پیدل چلایا جاتا ہے۔'

رتھینیا سے استنبول تک کا سفر روکسیلانا جیسی کم عمر لڑکی کے لیے معمولی بات نھیں تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سن 1509 میں ہی سلطان سلیمان کی شہزادے کی حیثیت سے پہلی تعیناتی 15 سال کی عمر میں کافا میں ہی تھی جہاں وہ گورنر بنا کر بھیجے گئے تھے۔حوریم سلطان کہاں سے آئی تھیں
پیئرس نے ’ایمپرس آف دی ایسٹ‘ میں لکھا ہے کہ ہمیں روکسیلانا کے اصل نام، جائے پیدائش، تاریخ پیدائش اور والدین کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

تاہم وہ لکھتی ہیں کہ ان کی اس زمانے میں بہت زیادہ اہمیت کے پیش نظر کچھ باتوں پر یقین کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ان کا تعلق یوکرین کے علاقے رُتھینیا سے تھا جو اس وقت پولینڈ کا حصہ تھا۔ روکسیلانا کا مطلب بھی ’رتھینیا کی لڑکی‘ ہے اور یورپ والے انھیں اس نام سے پکارا کرتے تھے۔

پیئرس کے مطابق ایک بات مکمل یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی پیدائش مسیحی خاندان میں ہوئی تھی۔ کچھ عثمانی روایات کے مطابق روکسیلانا ایک پادری کی بیٹی تھی۔

ترکی میں عثمانوی تاریخ اور قانون کے ایک پروفیسر اکرم بورا اکنجے نے حوریم سلطان کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس کا اصل نام الیگزانڈرا لیسووسکا تھا اور اسے 12 سال کی عمر میں کریمیا کے تاتاریوں نے اغوا کر کے استنبول بھیج دیا تھا۔

انھوں نے لکھا ہے کہ شاہی حرم میں باقی کنیزوں کی طرح حوریم سلطان کی بھی کئی سال تک شاہی آداب، عثمانی علوم اور اسلام کے بارے میں تربیت ہوئی اور پھر انھیں ان کی خوش مزاج طبیعت اور مسکراتے چہرے کی وجہ سے خرم نام دیا گیا(جو جدید ترک میں حوریم بن گیا)۔پیئرس نے ایک سے زیادہ بار حوریم کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی مشکلات کا ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی تفصیل سے بتایا ہے کہ اس زمانے میں شاہی حرم کی زندگی کے بارے لکھی گئی بہت سی کتابیں سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھیں اور زیادہ قابل اعتبار نہیں۔

انھوں نے لکھا ہے کہ روکسیلانا سنہ 1520 میں ستمبر میں سلطان سلیمان کی تخت پوشی کے کچھ ہی مہینوں کے بعد ان کے حرم کا حصہ بن گئی تھیں، اس وقت سلطان کی عمر 26 برس اور روکسیلانا تقریباً 17 برس کی تھیں۔ ’سن 1521 میں ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا۔

ان کے سلطان سے ایک بیٹی اور چار (کچھ ذرائع کے مطابق پانچ) بیٹے ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بظاہر اس معمول کی بات نے اس وقت سلطنت عثمانیہ کو تشویش میں ڈال دیا تھا۔
واپس کریں