دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فاقہ اور مزدور ۔ اللہ داد صدیقی
No image دھوپ
جلتے ، جھلستے رنگ وروپ
دل کی گہری ہوک
مایوسی
اداسی
سفر
مسافر
سسکتے خواب
ایک عذاب اور
اور ایک سراب
شجر سایہ نہ قبر
بے رحمی کی دھوپ
مایوسی اور ناکامی کے
ٹوپ اندھیرے
منزل بھی دور
اور ہوں میں
تھکن سے چور
زنجیریں
مجبوری بن گئیں
اور مجبوری ہی
حاصل ہے
اب روٹی سب کی منزل ہے
اور سب ہیں
فاقوں سے چور
ایک فکر کا فاقہ ہے
اب اس کا قحط پڑا ہے
مجھ پہ اس کا وار کڑا ہے
بھوک کا اک عفریت کھڑا ہے
اور اندھیر ہے اب گھور
خالی آنکھوں میں اب بھوک کا ڈیرہ
فاقہ اور مزدور
اللہ داد صدیقی
واپس کریں