دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی رابطے اور سرگرمیاں
No image وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد حسبِ توقع حکومتی اور اپوزیشن حلقے زیادہ متحرک نظر آرہے ہیں۔ رابطوں، دعوئوں، مشوروں، بیانات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اندرونی خبریں اور قیاس آرائیاں بھی گردش میں ہیں۔ قومی اسمبلی میں ’’نمبر گیم‘‘ کے حوالے سے اپنی اپنی فتح کے دعوے کارکنوں کے حوصلے بلند کرنے کا ذریعہ ہونے کے علاوہ موقف پر ڈٹے رہنے کے عزم کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ یہ امر بہرطور فریقین کے ملحوظ نظر رہنا چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کچھ بھی برآمد ہو، موجودہ اسمبلی جب تک موجود ہے، اس کی ہیئت ایسی ہی رہے گی۔ اختیارات کی صورت حال جوں کی توں رہے یا بدل جائے، فیصلہ سازی اور دیگر امور میں آگے بڑھنے کیلئے سب کی مشترکہ کاوشیں درکار ہوں گی۔ اس لیے بیانات کا لب و لہجہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جس میں مل جل کر ملکی مفادات کیلئے راہ عمل متعین کرنے کی گنجائش موجود رہے۔ سیاسی بیانات میں طنز کا عنصر خاص اہمیت رکھتا ہے جس کا مفہوم بڑی سے بڑی بات کا شائستہ انداز میں اس طرح ابلاغ کرانا ہوتا ہے کہ دلوں کو زخمی نہ کرے، چٹکی جیسا لطف دے۔ وطنِ عزیز کی پارلیمانی تاریخ میں جید سیاستدانوں کے بعض جملے کئی عشروں کے بعد بھی لوگوں کو یاد ہیں جن سے بات کہنے کے فن پر دسترس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلائو، کساد بازاری، سرد جنگ کے امکانات اور بڑی طاقتوں کی باہمی کشمکش کے عالمی منظرنامے میں وطن عزیز کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے انہیں سامنے رکھتے ہوئے تمام حلقوں کے بیانات اور اقدامات میں احتیاط کے پہلو مدنظر رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک موجودہ تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے، اس کے بعض صوبوں کی سطح تک اثرات پھیلنے کے امکانات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ پنجاب کے حوالے سے بہت سی شرطیں اور باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔ بلوچستان میں ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کے سائے ایک بار پھر منڈلاتے محسوس ہورہے ہیں۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اپنی پارٹی قیادت کو جہانگیر خان ترین اور عبدالعلیم خان سے بات چیت کا مشورہ دے چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین علالت کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری سے ملاقات کیلئے جاچکے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم اپنے معتمدین کے ذریعے اور بذات خود مختلف پارٹیوں اور افراد سے رابطے کررہے ہیں۔ اور دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن، شہباز شریف، آصف علی زرداری سمیت اپوزیشن رہنما فعال و متحرک ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن، دونوں کی طرف سے اپنے اپنے اہداف کے حصول و استحکام کی حکمت عملیاں مرتب کی جارہی ہیں۔ اس باب میں یہ واضح کیا جارہا ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ووٹنگ کی کیفیت پچھلے برس مارچ میں سینٹ الیکشن میں اپ سیٹ کے بعد عمران خان کی طرف سے لئے گئے ووٹ آف کانفیڈنس سے مختلف ہوگی۔ مارچ 2021میں عمران خان کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے جبکہ مارچ 2022میں اپوزیشن کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ارکان مقننہ کی اکثریت عمران خان کی مخالف ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں آرٹیکل 63۔اے کا اطلاق کرتے ہوئے منحرف حکومتی ارکان کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تحریک عدم اعتماد کے روز قومی اسمبلی کے ایوان میں حکومت کے متعین کردہ صرف ایک رکن کو شرکت کی اجازت ہوگی۔ اس باب میں اسپیکر کو دیا جانے والا یہ مشورہ صائب محسوس ہوتا ہے کہ عدم اعتماد کو لمبا نہ لٹکایا جائے اور اسمبلی کا اجلاس جلد بلایا جائے۔ بشکریہ ۔ جنگ
واپس کریں