دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
’ری ارتِھنگ‘: نئی طرز کی ماحول دوست تدفین
No image میتوں کی ماحول دوست تدفین کا نیا طریقہ ’ری ارتِھنگ‘ اب یورپ میں بھی متعارف کرا دیا گیا ہے۔ اس طرز تدفین کو ’دوبارہ مٹی بنائے جانے‘ کا نام دیا جا رہا ہے اور یورپ میں پہلی مرتبہ جرمنی میں اس طرز کی تدفین کی جانے لگی ہے۔یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں میتوں کی اس طرح تدفین کا عمل گزشتہ ماہ کے وسط سے جرمن دارالحکومت برلن میں قائم انسانوں کی آخری رسومات انجام دینے والے ایک کمرشل ادارے 'سرکیولم ویٹائی‘ نے شروع کیا ہے۔انسانی لاشوں کی اس طرح تدفین جرمنی میں پہلی بار کی جانے لگی ہے۔ اس سے قبل کسی بھی یورپی ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ امریکہ میں تاہم مردوں کو دفنانے کے لیے یہ ماحول دوست طریقہ کار گزشتہ تقریباﹰ ایک سال سے استعمال ہو رہا ہے۔

'ری ارتِھنگ‘ کیا ہے؟
اس طرز تدفین کو 'ری ارتِھنگ‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یوں 'زمین کی مٹی واپس زمین میں‘ پہنچ جاتی ہے۔ اس طرز تدفین کے لیے تابوت جیسا نظر آنے والا ایک خول یا 'کوکُون‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کوکُون میں موجود یک خلیاتی جانداروں اور 'جدید گرین ٹیکنالوجی‘ کی مدد سے اس کے اندر رکھی گئی کوئی بھی لاش 40 دنوں کے اندر اندر ایک نامیاتی برادے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔انسانی لاش کی کسی نامیاتی برادے یا بھربھری مٹی کی سی حالت میں اس تبدیلی کو ہی 'ری ارتِھنگ‘ (re-earthing) کہا جاتا ہے۔ مٹی (انسانی میت) کے دوبارہ مٹی بن جانے کے اس عمل کی تکمیل کے بعد کوکُون خالی کر دیا جاتا ہے، جسے پھر اسی طرح کسی دوسری میت کی تدفین یا آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے نئے سرے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوکُون سے نکالی جانے والی باقیات یا مٹی کو بعد میں کسی قبرستان ہی میں زمین میں صرف 30 سینٹی میٹر یا تقریباﹰ ایک فٹ گہری قبر میں دفنا دیا جاتا ہے۔

ایسی تدفین کے اولین واقعات شمالی جرمنی میں
جرمنی اور یورپ میں انسانی لاشوں کی اس طرح تدفین کا عمل پہلی بار شمالی جرمنی میں لیوبَیک لاؤن بُرگ نامی علاقے کے شہر میُلن میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ اس شہر میں کلیسائی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی اس طرز تدفین کی حمایت کر دی تھی۔کلیسائی ترجمان میشائل بِرگڈَین کے مطابق یہ تدفین کا بہت ماحول دوست طریقہ ہے۔ کوکُون میں کسی میت کو 40 روز تک اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اس عرصے میں کوئی بھی میت مسلسل مادی تبدیلیوں سے گزرتی ہوئی قدرتی کھاد کی سی حالت میں آ جاتی ہے۔فی میت ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بچت
شمالی جرمنی کی کلیسائی تنظیم 'نارتھ چرچ‘ کے مطابق کسی بھی انسان کی موت ماحولیاتی حوالے سے منفی ضمنی نتائج کی وجہ بھی بنتی ہے۔ مثلاﹰ یورپ میں کسی بھی میت کو نذر آتش کر کے اس کی راکھ دفنا دینے کا رجحان عام ہے۔

لیکن اگر کسی انسان کی تدفین 'ری ارتِھنگ‘ کے طریقے سے کی جائے، تو فضا میں اس تقریباﹰ ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج سے بچا جا سکتا ہے، جو کسی میت کو نذر آتش کرنے کے عمل کے دوران پیدا ہوتی ہے۔'ری ارتِھنگ‘ کے طریقہ کار سے کوئی کاربن گیسیں اس لیے خارج نہیں ہوتیں کہ اس میں کسی بھی کوکُون میں گھاس پھوس، تنکے اور پھول رکھ کر میت کو ان پر رکھ دیا جاتا ہے اور چالیس روز بعد اس میں سے بھربھری مٹی نکال کر اسے دفنا دیا جاتا ہے۔تدفین کار ادارے کے بانی کا موقف
برلن کے 'سرکیولم ویٹائی‘ نامی کمرشل تدفین کار ادارے کے شریک بانی پابلو مَیٹس کے مطابق انہوں نے یورپ میں اپنے ادارے کی سرگرمیاں شروع کرنے سے پہلے کئی سماجی، مذہبی اور قانونی حلقوں سے تفصیلی مشاورت کی۔انہوں نے کہا، ''اس مشاورت کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری پیشہ وارانہ سرگرمیاں شمالی جرمن صوبے شلیسوگ ہولشٹائن میں مردوں کی تدفین سے متعلق مروجہ قانون سے متصادم نہیں ہوں گی۔‘‘

جرمنی میں مردوں کی تدفین سے متعلق قوانین صوبائی حکومتیں منظور اور نافذ کرتی ہیں، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ کسی ایک جرمن صوبے میں ایسے قوانین باقی صوبوں سے مختلف ہوں۔
واپس کریں