دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی ہلچل اور زمینی حقائق : جنید ملک
No image آج کی سیاسی ہلچل کے حوالے سے ہر کوئی پرجوش ہے۔ لوگ عدم اعتماد کو لے کر سوشل میڈیا پر اپنی اپنی پارٹی کے حق میں پوسٹیں کر رہے ہیں اور اسے بہت بڑا انقلاب قرار دے رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ حقائق کی طرف توجہ دینے کو کوئی تیار نہیں۔ کوئی یہ سمجھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا کہ جرنیلی ٹولے نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ایک نیا شوشا چھوڑ کر عوام کی توجہ اپنی غلطیوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہوئے مسائل سے ہٹا کر سیاسی اکھاڑے کی طرف مبذول کروا دی ہے۔ اس سارے کھیل میں انہیں اپوزیشن پارٹیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے جو جمہوریت اور قومی مفاد کے نام پر جرنیلوں کا پھیلایا ہوا گند اپنانے کو تیار نظر آرہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ صورتحال ملک کی سمت تبدیل کرنے کا ایک تاریخی موقع تھا جب فوجی قیادت اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دب چکی تھی اور اگر یہ سلسلہ طول پکڑتا یا فوج کی مسلط کی گئی سوغات اپنی مدت پوری کر جاتی تو جرنیل عوام کے غضب کا شکار ہو کر خود ہی سیاست سے تائب ہو جاتے۔ لیکن اس موقع پر مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور فضل الرحمن نے باجوے کے اشارے پر عدم اعتماد والا کھیل رچا کر نہ صرف جرنیلی ٹولے کا گند اپنے کھاتے ڈال لیا ہے بلکہ فوج کو ایک بار پھر نئی سیاسی زندگی عطا کر دی ہے۔ یعنی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں نے بوٹ کی عزت بچا لی۔

اس وقت حالات یہ ہیں کہ ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے اور بحالی ناممکن ہے۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ تمام حدیں پار کر چکا ہے اور برامداد بڑھانے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیئے مسلسل بیرونی قرضوں کی ضرورت ہے جبکہ کل قرضہ پہلے ہی قومی آمدن کا نوے فیصد ہو چکا ہے۔ قومی آمدن اور خرچوں کا فرق بڑھتا جا رہا جس کے نتیجے میں بجٹ خسارہ چالیس فیصد تک جا پہنچا ہے جبکہ آمدن بڑھانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کے دباو پر مرکزی بینک کو خودمختاری دی جا چکی ہے اور حکومت پر مرکزی بینک سے قرضے لینے پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ دوسری طرف خارجی سطح پر پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات خراب ہیں اور سی پیک پر سرمایہ کاری منجمد ہو چکی ہے۔ امریکہ سے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں جبکہ عرب ممالک سے تعلقات بھی سردمہری کا شکار ہیں۔ اہف اے ٹی ایف نے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے جبکہ افغانستان میں موجود شدت پسند گروہ پاکستان میں مسلسل دھشتگردی کروا رہے ہیں۔ ان حالات میں جب معیشت دیوالیہ پن کا شکار ہے اور مہنگائی عروج پر ہے اگر کوئی نیا سیٹ اپ آتا ہے تو وہ سارا ملبہ اپنے سر لے لے گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ گالیوں کا رخ بھی نیازی اور اس کو لانے والوں کی بجائے نئے سیاسی سیٹ اپ کی طرف ہو جائے گا۔ ایسے میں عوام کو ریلیف دینے کے لیئے شارٹ ٹرم اقدامات کی صورت میں مزید غلطیاں کی جائیں گی جو آگے چل کر مہلک ثابت ہوں گی۔
بہرحال اس تمام سلسلے کے پیچھے جو جرنیلی حدف تھا وہ پورا ہو جائے گا اور وہ پھر سے گردنیں اکڑا کر سیاسی نظام کو چلاتے نظر آئیں گے۔
واپس کریں