دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خواتین کا عالمی دن،پیپلزپارٹی کی اصلاحات اور کشمیری خواتین
No image خصوصی تحریر؛شاہین کوثر ڈار
خواتین کا عالمی دن،پیپلزپارٹی کی اصلاحات اور کشمیری خواتین
8مارچ دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد عورت کی حیثیت کو تسلم کرتے ہوئے اسے اس کا سماجی اور معاشی حق دینا ہے۔1975میں پہلی بار اقوام متحدہ نے باقاعدہ طور پر 8مارچ کے دن کو خواتین کے عالمی دن کے نام سے منسوب کیا۔اور 1977میں ایک قرارداد اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور کی گئی جس میں تمام ممبر ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں اپنی اپنی روایات کے مطابق اس دن کو منانے کا اہتمام کریں۔دنیا کے بہت سے ممالک میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔پوری دنیا میں اس دن مختلف فورم پر جلسے،جلوس،سمینارز،اور تقریروں کے ذریعے خواتین کے بنیادی حقوق کی بات کی جاتی ہے۔دراصل اگر تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ظہور اسلام سے قبل عورت تمام مذاہب میں باعث شرم و ذلت اور سبب و مصیبت و گناہ تصور کیا جاتا تھا۔عرب کے اندر لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا۔ہندؤ مذہب میں تو عورت پر تعلیم کے دروازے تک بند تھے۔اور عورت کی حیثیت پاوئں کی جوتی کی سی تھی اگر پاؤں میں پوری آئے اور اچھی لگے تو پہن لی،اور اگر ناگوار گزرے تو الگ کر دو یا بدل دو۔شوہر کے مرنے کے بعد عورت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔عورت کو گناہوں کی جڑ سمجھا جاتا تھا۔لیکن اسلام نے اس عقیدے کو ختم کیا۔اور عورت کو عزت و تکریم دی۔اسے وہ حقوق دئیے۔جو کسی اور مذہب نے نہیں دئیے۔ہمارے نبی حضرت محمد ؐ نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا 'لوگوعورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو،وہ تمھارے ہاتھوں میں اللہ کی امانت ہیں۔پس تم ان سے نیک سلوک کرو۔تمھارا عورتوں پر او ر عورتوں کا تم پر حق ہے۔؛ اسلام نے عورت کو روحانی ترقی میں بھی نظر انداز نہیں کیا۔زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمان خواتین نے مثالی کردار ادا کیا۔علم و ادب کا میدان ہو یا جنگ کا میدان،سیاست ہو یا مذہب خواتین ہمیشہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔یہ خواتین کی محنت اور کاوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ 1948میں اقوام متحدہ نے یونیورسل ڈیکلئریشن آف ہیومن رائٹس کو پاس کر کے ایک نیا عالمی قانون متعارف کروایا۔جس میں عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔عورتوں کے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے امتیازی رویوں کے خاتمے کیلے اقوام متحدہ نے 1979میں ایک قانون پاس کیا جس کو دنیا کہ بشتر ممالک اپنے اپنے قوانین کا حصہ بنا چکے ہیں۔قابل فخر کامیابیوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو ابھی بھی بیشمار چیلنجوں اور سختیوں کا سامنا ہے۔پاکستان میں عورتوں کی تقدیر اس وقت بدلی جب محترمہ بے نظیر بھٹو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر منتخب ہوئیں۔بے نظیر بھٹو شہید نے وزارت عظمی پر متمکن ہوتے ہی عورتوں کے حقوق کے لیے اپنی باضابطہ قومی پالیسی واضع کرتے ہوئے خواتین کی بھلائی کے لیے بے شمار اصلاحات کر کے نہ صرف خواتین کو ان کے مساوی حقوق دیئے بلکہ اسلام کے حقیقی اصولوں کے مطابق ان کو سیاست،پارلیمنٹ،کاروبار،ملازمت اور دیگر شعبہء زندگی میں بے شمار مواقع پیدا کر کے ان کی صلاحیتوں کو برُوئے کار لانے کا موقع فراہم کیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے فرسٹ ویمن بنک کا قیام عمل میں لا کر خواتین کو سرمایہ کاری اور ترقی کی طرف راغب کیا۔جبکہ خواتین کے لئے الگ پولیس سٹیشن کا قیام بھی ان کے پہلے دور حکومت میں عمل میں لایا گیا۔خواتین کی بنادی صحت اور ان کے مسائل کے تدارک کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ایک کثیر تعداد کو بھرتی کر کے نہ صرف خواتین کو روز گار کے مواقع مہیا کیے بلکہ زچہ بچہ کی بنیادی صحت سے متعلق بھی ان کو باضابطہ تربیت دے کر فیلڈ میں بھیجا گیا۔اور آج الحمداللہ نہ صرف صحت کے بنیادی مسائل میں کمی آئی بلکہ خواتین کی صحت سے متعلق بہت بہتری بھی آئی۔ان ڈیڑہ لاکھ سے زائد ہیلتھ ورکرز کوپیپلز پارٹی کی سابق حکومت میں مستقل بھی کیا گیا۔جو پیپلز پارٹی کی حکومت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ چئیر مین پاکستان پپلز پارٹی بلاول بھٹو اورپاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی چئیرپرسن محترمہ فریال تالپور کی ذاتی دلچسپی کے باعث پاکستان میں خواتین کو روز گار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت بے روز گار خاندانوں کا انتہائی شفاف طریقے سروے کروایا گیا اور اورمستحق خاندانوں کو ہر ماہ ایک معقول رقم باعزت طور پر مہیا کی جاتی ہے۔جبکہ ہنر مند خواتین کو بلاسود قرضے اور اپنا کام کاج شروع کرنے کے لیے سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی ہدایت پر معقول امداد بھی کی گئی۔جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مقبولیت پوری دنیا میں ہورہی ہے اور کئی عالمی ادارے اس پروگرام کی شفافیت پر اطمینان کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جہاں پوری دنیا کی خواتین کے جذبہ اور ہمت کو سلام پیش کرنے کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں وہاں اپنی ان مقبوضہ کشمیر کی ماؤں،بہنوں،اور بیٹیوں کو بھی سلیوٹ کرنا چاہئے جو بھارتی ظلم و جبر کا شکار ہوئیں اورخواتین کے عالمی دن کے موقع پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھی چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کا نوٹس لیں۔

دنیا بھر میں آج خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کی خوشحال، پروقار اور پر عزم خواتین کے ساتھ ہی کشمیری خواتین بھی شامل ہیں۔ انیس سو نواسی سے اب تک بائیس ہزار سے زائد کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں۔آزادی کی جنگ لڑتی کشمیری خواتین کے کارنامے یوں تو دنیا بھر کی نظروں سے اوجھل ہیں نہ انہیں آسکر ایوارڈ ملتا ہے اور نہ ہی یہ نوبل امن انعام کے لیئے منتخب کی جاتی ہیں، لیکن پھر بھی اپنے وطن کی مٹی کے لیئے یہ آج بھی پر عزم ہیں بیٹوں، بھائیوں اور شوہر کے درد میں مبتلا کشمیری خواتین آج بھی عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے سوال پوچھتی ہیں کہ ان کے لیئے کب امن کا دن منایا جائیگا، سر سے سہاگ کا سایہ چھن جانے والی کشمیری خواتین کی تعداد بائیس ہزار آٹھ سو دس ہے۔کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد جنوری انیس سو نواسی سے لیکر اب تک کی ہے جبکہ بیوہ ہونے کے علاوہ کئی خواتین ایسی بھی ہیں جنہیں کشمیری درندہ صفت فوجی جنسی حوث کا نشانہ بناتے رہے ہیں، ذیادتی کا نشانہ بننے والی کشمیری خواتین کی تعدادگیارہ ہزار سے زائدہے۔آٹھ ہزار سے زائدکشمیری خواتین ایسی بھی ہیں جو گزشتہ ستائیس سال سے جاری اس جنگ میں لا پتہ ہو چکی ہیں۔
واپس کریں