دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جمہوریت پاکستان میں امریکی گھوڑا ہے۔طاہر عبید چودھری
No image اسلام ہمارے نزدیک کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں۔ سابق امریکی سفیر رچرڈ اولس نے کہا تھا ’’جمہوریت پاکستان میں امریکی گھوڑا ہے‘‘۔ امریکی گھوڑے پر بیٹھ کر اسلام کا پرچم کیسے لہرایا جاسکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے مذہب سے چھٹکارہ حاصل کیا گیا اسی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے اسلام کو نافذ کیا جاسکے؟ جس نظام میں سود بنیادی ستون اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اللہ کا وہ قانون کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے جس میں سود اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے؟ جہاں ہر دس گز کے فا صلے پر بینک اللہ کا قانون توڑ رہے ہوں وہاں اسلام کیسے ریاست کا قانون ہوسکتا ہے؟

اس نظام میں گاہے گاہے دیندار لوگوں کو کچھ عہدے اور وزارتیں دے دی جاتی ہیں۔ ہر الیکشن میں پانچ چھے یا اس کے لگ بھگ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیں بھی دے دی جاتی ہیں تاکہ اس سیکولر نظام کی نہ صرف پردہ پوشی کی جاسکے بلکہ اسے پر اسلامی رنگ بھی چڑھایا جاسکے اور عوام یہ یقین کرسکیں کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بتدریج اسلامی نظام ممکن ہے کیونکہ فلاں مذہبی شخصیت اس نظام کا حصہ ہے۔ یقینا ان نیک سیرت اشخاص کے اخلاص میں کوئی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم پچھتر برس سے تجربہ کررہے ہیں لیکن اسلام کی منزل قریب آنے کے بجائے ہم سے دور ہوتی جارہی ہے اور ان مذہبی ضمانتوں کی طاقت اور شخصیات کی قبولیت بھی کم یا تحلیل ہوتی جا رہی ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ ان کی کوششوں کا محور اس نظام میں چندسیٹوں، وزیروں اور مشیروں کے عہدوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کیا ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس نظام پر غالب آکر اسلام کو نافذ کرسکیں گے؟ یہ نظام خود کو پورے کا پورا قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ سیاست، معیشت، عدالت، خارجہ پا لیسی، دفاعی پالیسی اور دیگر نظام تو اس سرمایہ دارانہ نظام سے لے لیے جائیں اور ساتھ ہی چند امور میں اسلام کو مرکزو محور بنالیا جائے۔ ایسا ممکن نہیں۔ اسلام کو بطور ’’اسلامی ٹچ‘‘ ’’مثال‘‘، پیوند یا چھڑکائو تک تو یہ نظام برداشت کرسکتا ہے وہ بھی مصلحتاً، اس تاک میں رہتے ہوئے کہ کب اس سے نجات حاصل کی جائے لیکن اسلام کا مکمل نفاذ، پاکستان کا ریاست مدینہ میں بدل جانا اس نظام میں ممکن ہی نہیں۔
جنرل ضیا الحق اور ان سے بھی پہلے جنرل ایوب خان اور ان کے بعد جنرل پرویز مشرف پھر زرداری، نواز شریف اور عمران خان تک ہمارے فوجی اور سیاسی حکمران امریکی ورلڈ آڈر کی نگہبانی کا فرض انجام دیتے آئے ہیں۔ ان کی ’’خدمات حسنہ‘‘ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان ایک ایسی امریکی کالونی ہے جس کی معیشت آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر سے اس حدتک مشروط ہوکررہ گئی ہے کہ شہباز حکومت، عمران خان کے لانگ مارچ یا پھر عبوری حکومت، سب کا انحصار دوحا میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی یا آئی ایم ایف کے آگے سرجھکانے اور امریکی غلامی کی منزل تک پہنچنے پر منحصر ہو کررہ گئی ہے۔ اس صورتحال میں اسلام کو بطور ’’ٹچ‘‘ استعمال تو کیا جاسکتا ہے البتہ اس کا نفاذ ممکن نہیں۔
لہذا یوتھیا، پٹواری، جیالا یا کوئی اور سیاسی جگادری بننے اور ان الفاظ کے ساتھ طعنے کوسنے دینے کے بجائے سچا مسلمان اور پکا پاکستانی بننے کی کوشش کریں تاکہ اپنے سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے جھوٹی وضاحتیں پیش کرنے کے بجائے آپ کوئی عقلی/ شعوری یعنی منطق اور دلیل کا راستہ اختیار کرسکیں۔
واپس کریں