دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سرمایادارانہ نظام۔عمران کامیانہ
No image مالتھیس نے اپنی تحریر ’’آبادی کے اصولوں پر ایک مضمون‘‘ میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ’’آبادی کو موجودہ سطح پر رکھنے کے لئے بچوں کی جتنی تعداد درکار ہے اس کے علاوہ تمام بچوں کو ختم ہو جانا چاہیے۔ ۔ ۔ (اس مقصد کے لئے) ہمیں تباہی کے تمام طریقوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ غریبوں کے لئے صفائی کی بجائے گندگی کو پروان چڑھانا چاہیے، اپنی آبادیوں میں ہمیں گلیاں تنگ بنانی چاہئیں، کم سے کم گھروں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رکھنا چاہیے اور وبائی امراض کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ۔ ۔ ‘‘ آگے چل کر وہ مزید لکھتا ہے ’’لیکن سب سے بڑھ کر ہمیں موت پھیلانے والی بیماریوں کے علاج کے لئے بنائی جانی والی ادویات کے ساتھ ساتھ ان خیر اندیش لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو ایسی غلطی سے ایسی بیماریوں کے علاج کو انسانیت کی خدمت سمجھتے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ مالتھیس کی تمام تر ’’تعلیمات‘‘ کا نچوڑ ہیں جس کاتعارف آج بھی سماجی علوم کے نصاب میں ’’دانشور‘‘ اور ’’فلسفی‘‘ کے طور پر کروایا جاتا ہے۔

سوشل ڈارون ازم سرمایہ داری کے خمیر میں شامل ہے جس کا اظہار ماضی میں بحران کے ادوار میں فاشزم کی شکل میں ہوتا آیا ہے اور آج بھی اس نظام کی اصلیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مالتھیس کا یہ نظریہ بعد کے ادوار، خاص طور پر بیسویں صدی میں بھی مختلف اشکال میں پیش ہوتا رہا ہے، مثلاًسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پال اہرلیک نے 1968ء میں اپنی مشہور تصنیف ’’آبادی کا بم‘‘ (The Population Bomb) میں اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی آبادی حد سے تجاوز کر چکی ہے اور 1970ء کے بعد اربوں ’’زائد‘‘ افراد کا بھوک اور بیماری سے مر جانا ناگزیراور ’’ضروری ‘‘ہے اور انسانیت کے پاس واحد راستہ آبادی میں نمو کی شرح کو صفر سے نیچے لے جاتے ہوئے آبادی کو ’کنٹرول‘ میں لانا ہے۔ یہ الگ بات ہے موصوف کے اس عظیم انکشاف کے بعد سے دنیا کی آبادی دوگنا ہو چکی ہے اور غربت میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی وجوہات اور شدت وہ نہیں ہیں جو پروفیسر اہرلیک نے بیان کی تھیں.۔ تاہم یہ حقیقت بہت حیرت انگیز ہے کہ دنیا کی تمام 7ارب آبادی امریکی ریاست ٹیکساس میں باآسانی سما سکتی ہے۔ ٹیکساس کا کل رقبہ 268,820 مربع میل ہے اور اس صورت میں دنیا کے ہر فرد کو رہائش کے کیلئے 1000مربع فٹ جگہ دستیاب ہوگی۔ یہ اتنی جگہ ہے جس کا خواب یورپ کی فلاحی ریاستوں میں بھی لوگ نہیں دیکھ سکتے، ڈنمارک میں یہ اعشاریہ 570 مربع فٹ فی شہری ہے۔

وینس پراجیکٹ نامی ادارے کی جانب سے تیار کردہ شہروں کا تصوراتی خاکہ
ایک منصوبہ بند معیشت میں ایسے خود کار (Autonomous) شہر بسائے جاسکتے ہیں جہاں انسان کی تمام تر بنیادی ضروریات مقامی طور پر پیدا اور استعمال کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پرایک ماڈل کے مطابق 60 مربع کلومیڑ کا رقبہ رکھنے والے دائروی (Circular) شہر کے 45فیصد حصے (27مربع کلومیٹر)میں دس لاکھ لوگ با سہولت رہ سکتے ہیں(12,012افراد خاندانوں کی شکل میں گھروں میں جبکہ 999,000 انفرادی فلیٹس میں)۔ باقی کا 55 فیصد رقبہ توانائی، پانی اور خوراک کی پیداوارکے ساتھ ساتھ تعلیم، علاج، ریسرچ اور تفریح کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ منصوبہ بندی سے بسائے گئے ایسے صرف 10000 شہر 10 ارب لوگوں کو رہائش کے ساتھ ساتھ دوسری تمام تر ضروری سہولیات فراہم کر سکتے ہیں اور اس صورت میں بھی کرہ عرض کے خشک رقبے کا 0.4 فیصد حصہ درکار ہوگا

واپس کریں