دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
رجیم چینج کیا ہے اور لیڈر کون بناتا ہے؟طارق محمود بیگ
No image رجیم چینج کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ایسا وقت آیا کہ جاپان نے ایک سال میں 4 وزیر اعظم بدلے۔ کہا جا تا ہے کہ اس وقت عالمی منڈیوں پر جاپان چھا یا ہوا تھا اور امریکہ اور مغربی منڈیوں کو سخت مقابلے کا سا منا تھا۔ ہند وستان میں رجیم چینج کا فلسفہ کبھی اس طرح سامنے نہیں آیا۔ اسکی کیا وجہ ہے۔ حا لانکہ ہندوستان میں سیاست بہت مشکل ہے ، کئی ریاستیں ہیں، کئی کلچر اور کئی زبانیں بولی جا تی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی حکومتیں بین الاقوامی پریشر کو برداشت کرنے کی مکمل صلا حیت رکھتی ہیں اور پھر اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے اداروں سے ہم آہنگ کر نے کا عمل باہم جاری رکھتے ہیں۔ اسکے بر عکس پاکستان خارجی طور پر اپنی پہنچان مستحکم حکومتوں کی بجائے ایک مظبوط بیوروکریسی جسکو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے، بین الاقوامی سطح پر ایک حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں اس بات کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے سیاست دانوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی ذاتی خوہشات، اقتدار میں رہنے کے لئے کچھ طاقت ور ملکوں کے ساتھ اپنی نوعیت کی کمنٹ منٹ کیں جس کی کو ئی گارنٹی نہ ہونے کی وجہ سے بے اثر رہیں۔

آئشہ جلال اپنی کتاب The Struggle for Pakistan میں لکھتی ہیں کہ پاکستان میں رجیم چینج کبھی بھی انکے داخلی حالات کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ یعنی اس میں کئی خارجی عوامل کار فرما رہے۔ جسکی وجہ سے عمران کے مشیر نے بہت ہی خوبصورت اور پاکستانی عوام کے امریکہ مخالف جذبات کواُبھارنے والا بیانیہ تیار کیا۔ جو صرف ایک سفارت کار کی رائے پر مبنی تھا۔ میری دانست میں ایران عراق جنگ میں پاکستان کی افواج کے کرادر کے حوالے سے سابق صدر پاکستان محمد اسحاق خان نے محترمہ بینظیر کی حکومت کو ختم کیا تھا۔ بعدمیں یہ فیصلہ عبوری حکومت سے کراوایا گیا۔ اسی طرح نواز حکومت کا خاتمہ سی پیک کی وجہ سے بہتر ہوتی ہوئی معشیت کے بیش نظر ہوا۔ اب عمران خان کی حکومت کے دوران تینوں ممالک چین، امریکہ اور سعودی عرب سے کشیدہ تعلقات نے خارجی طور پر رجیم چینج ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے اور داخلی طور سیاسی عدم استحکام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ اس صورت حال میں یہ بیانیہ کہ عمران خان کی حکومت کو اسٹییلشمنٹ نے چلتا کیوں کیا۔ اس میں بتائی گئی معلومات کے علاوہ اور بہت سے عوامل شامل ہونگے۔ اب عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر دباو ڈال رہے ہیں تاکہ انکے حق میں فیصلہ ہوسکے۔ سیاسی تھیورسٹ کے مطابق اس قسم کے دباو سے مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تک تمام سیاسی قوتیں ایک پلیٹ فارم پر نہیں آتین۔ لیکن عمران خان اس وقت ملک کی تمام سیاسی قوتوں سے پنجہ آزمائی کر ہے ہیں۔

پاور پالیٹکس پوری دنیا میں موجود ہے اور اس میں دنیا کے بہت سے سیاسی رہنما شامل ہیں۔ لیکن انکی پاور پا لیٹکس کسی آئین اور قانون کے مکمل تابع نظر آتی ہے اور چناو کے تمام طریقے ایک ضبط کے مطابق ہیں ۔ پاکستان میں ایک بچہ کو بھی معلوم ہے کہ لیڈر کون بناتا ہے، سیاسی پارٹی کس طرح معرض وجود میں آتی ہے اور پھر پیسہ کہاں سے آتا ہے۔ پھر اسکی مہم کون چلاتا ہے اور اسکی لابنگ کہاں اور کس ملک میں ہوتی ہے اور کون سے لوگ مو ئثر ثابت ہونگے اور کہاں فیصلہ ہو گا کہ اب اقتدار کس کو ملنا چا ئیے۔ وہاں صرف پاور ہا وئسز کی طرف دیکھا جا تا ہے اور عوامی تحرک (Mobilization) کو تیسرے اور چھوتھے درجے پر رکھا جاتا ہے۔ عمران خان کو یہ ہی غصہ ہے کہ پاور ہاوئسز میرے ساتھ بد عہدی کر رہے ہیں۔
واپس کریں