دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بول نیوز کا لائسنس لبیک ٹی وی کے نام پر ہے۔
No image محترم کامران خان جب جیو کے ملازم تھے اور پروگرام کرتے تھے، تب یہ لائسنس انھوں نے حاصل کرلیا تھا۔میر شکیل الرحمان کو علم تھا لیکن ان میں ٹیمپرامنٹ انتہا کا ہے۔ انھوں نے کبھی جتایا بھی نہیں ہوگا۔
مجھ جیسے عام کارکن تک کو اس وقت بھی علم تھا کہ کامران صاحب دن میں ایگزیکٹ کے دفتر جاتے تھے اور شام کو جیو کے دفتر آکر اپنا شو کرتے تھے۔جیو کے ملازمین کو ایگزیکٹ سے ای میلز آنا شروع ہوئیں تو نیوزروم میں چہ مگوئیاں ہوئیں کہ یہ ای میل ایڈرس ایگزیکٹ کو کیسے ملے۔ بعض گروپ ای میل ایڈرس باہر والوں کو معلوم نہیں تھے۔
ظاہر ہے کہ کامران صاحب اور جیو میں ان کے ساتھی بیٹھے تھے۔ ای میل ایڈرس یہاں سے کاپی اور وہاں سے خود ہی ای میل کرتے ہوں گے۔
جب ایگزیکٹ کا پول کھل گیا تو کامران صاحب پتلی گلی سے نکل لیے اور شعیب شیخ پھنس گیا۔

میں ایگزیکٹ سے کئی کالز آنے کے باوجود ایک بار بھی اس دفتر نہیں گیا۔ بلکہ دوسروں کو بھی روکتا رہا۔ بول جانے والے میرا مذاق اڑاتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔
کامران صاحب جب تک جیو میں تھے، ان کا بڑا رتبہ تھا۔ میر شکیل الرحمان، جنگ اور جیو کی چھتری میں بہت سے لوگ بڑے لوگ تھے۔ اس چھتری سے نکل کر قد چھوٹا ہوجاتا ہے۔ کامران صاحب کے ٹوئیٹس، ان کے ولاگز، ان کی گفتگو سب سے عیاں ہوگیا کہ ان کی قامت کتنی ہے، شعور کس قدر بلند ہے اور وہ کس کے اشاروں پر موقف اپناتے اور بدلتے ہیں۔
بول کا نہ صحافت سے تعلق ہے اور نہ اس کی بندش اظہار کی آزادی پر حملہ ہے۔ یہ سچ بولنے کی آواز دبانے کے لیے بجایا جانے والا ڈھول تھا۔ بدقسمتی سے اب سچ بولنے والے کم ہیں اور ڈھول زیادہ۔ صحافی کم ہیں اور ڈھولچی زیادہ۔
واپس کریں