دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یہود یت اور عیسائیت کا گٹھ جوڑ کب اور کیسے ہوا؟
No image فروری 1991 کے پہلے ہفتے کے نیوز ویک میں خبر شائع ہوئی کہ جب اٹلی کے وزیر خارجہ سے دریافت کیا گیا کہ وارساپ پیکٹ کے بعد نیٹوNATO (معائدہ شمالی اوقیانوس) کو باقی رکھنے کا کیا جواز ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ”مستقبل میں اسلامی قوتوں کے ابھرنے کا شدید خطرہ ہے اس لئے اس کو باقی رکھنا ضروری ہے“ برطانیہ کی سابق وزیر اعظم مار گریٹ تھیچر نے جون 1989میں نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں کہا تھا کہ”روسی خطرے میں کمی کے باوجود نیٹو کا وجود قائم رکھنا ضروری ہے تاکہ مشرقی وسطی میں مسلم انتہا پسندوں کو دبانے کے لئے اس فوجی قوت سے فائدہ اٹھایا جا سکے“
مغربی طاقتوں کی توجہ مبذول کرانے اور ان میں اتحاد قائم کرنے کے لئے”اسلامی بنیاد پرستی“ کی اصطلاح گھڑی گئی۔ اس وقت کے نیٹوکے سیٹی جنرل ولی کلاس نے کہا تھا”اسلامی بنیاد پرستی ہمارے لئے اتنا ہی بڑا چیلنج ہے جتنا ماضی میں کیمونزم تھا“ نیٹو کی تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ”اب سرخ خطرے(کیمونزم(کے بجائے سبز خطرہ(اسلام) لاحق ہے
دی ٹائم اور دی ٹیلی ٹیلی گراف جیسے اخبارات نے بھی اس وقت عیسائی دنیا بالخصوص یورپ کو خبردار کیا کہ خطرہ عین تمہاری ناک کے نیچے پل کر جوان ہو رہا ہے۔ 1967 میں یہودی رہنماؤں نے برملا یہ اعلان کیا تھا کہ”ہم نے مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا ہے“ اس اعلان کے چار ماہ بعد ایک یہودی معبد میں یہودیوں اور عیسائیوں کی مشترکہ تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں ہر دو فریق نے اپنی مقدس کتابوں کو ہاتھ رکھ کر یہ وعدہ کیا تھا کہ”آئندہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کام کرنے کے بجائے مسلمانوں کے خلاف کام کرینگے“
اسی تقریب میں مسیحی رہنما سیمول نے کہا ”ہماری کوشش یہ نہیں ہوگی کہ ہم مسلمانوں کو مسیحیت میں لے آئیں بلکہ ہمارا اولین مقصد یہ ہوگا کہ ہم مسلمانوں کو حلقہ اسلام کے اندر نہ رہنے دیں مسلمانوں کی نئی نسل کو مذہب سے سخت نفرت دلائی جائے،ان کو اسلامی تہذیب وہ ثقافت سے بالکل خارج کر دیا جائے تاکہ آئندہ ان کے ذہنوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت کے نام کی کوئی چیز متاثر نہ کر سکے“ اور اس کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں میں عالمی اتحاد قائم ہو گیا،
ان کے درمیان صدیوں کی رکاوٹ ختم ہوگئی اورعیسائیوں اور یہودیوں کی دشمنی دوستی میں بدل گئی۔
1972 میں پیرس میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ”مسلمانوں میں دین، دنیا اور سیاست کے مابین علیحدگی کے تصور کو تقویت پہنچائی جائے“۔ مقررین نے مذید کہا کہ”مسلمانوں کو جنگوں کے ذریعے مغلوب کرنا آسان کام نہیں، اس لیئے ان کو سب سے پہلے تہذیب، تمدن اور مذہب کے لحاظ سے بے جان کر دیا جائے اور اس کے بعد اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے ان پر اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ خود ہمارے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیں“
اجلاس کے اختتام پر مسیحی اور یہودی راہنماؤں نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یہ اعلان کیا تھا کہ”مسیحیت اور موسویت کی بقاء کا راز محمدیت کے خاتمے میں ہی مضر ہے۔ اس کے بعد دونوں فریقوں نے اپنی سرگرمیوں کا نشانہ اسلام اور مسلمانوں کو بنا لیا جو ہر لمحہ شدید سے شدیدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
واپس کریں