دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیلاب متاثرین کےلئے باہر ممالک سے آیا ہوا امداد کہاں گیا؟
 سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
سیلاب کے پہلے گھڑی سے لیکر اب تک ہر متاثرہ علاقے میں آپ کو فلاحی سماجی اداروں کی ریلیف سرگرمیوں کی بہ نسبت حکومت کی ریلیف سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر نظر آئیں گے، حالانکہ ایسے نامساعد حالات میں متاثرین کی بحالی کےلئے ایمرجنسی بنیادوں پر بحالی اقدامات ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایمرجنسی بجٹ سے فی الفور بحالی کا عمل شروع کرے مگر حالیہ سیلاب کے تباہ کاری میں حکومت کی طرف سے کچھ ایسے اقدامات نہ ہوئے جس سے زمہ دار ریاست کی عکاسی ہوسکے، بلکہ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے، حکومت کی ایمرجنسی فنڈ تو کجا باہر سے آئے ہوئے بڑی مقدار کا امداد بھی اب تک فیلڈ میں تقسیم کرتے ہوئے کہیں نظر نہیں آیا۔جس کی وجہ سے عوام بالخصوص سیلاب زدگان میں تشویش کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق اب تک دنیا کے مختلف ملکوں سے ایک سو گیارہ (111) ہوائی جہاز امدادی سامان لے کر پاکستان آچکے ہیں۔ ان میں متحدہ عرب امارات (41)، ترکی (13)، چین (4)، قطر (4)، امریکا (21)، سعودی عرب (2)، عمان (2)، اور نیپال، برطانیہ، فرانس، ازبکستان، ترکمانستان اور اردن سے ایک ایک ہوائی جہاز سامان لے کر آیا ہے۔ ان کے علاوہ یونیسیف (2)، اقوام متحدہ کا ہائی کمیشن برائے پناہ گزین (13) اور عالمی ادارہ خوراک (3) جہاز پاکستان بھیج چکے ہیں۔
جہازوں کی اس تعداد سے ایک طرف یہ پتا چل جاتا ہے کہ کون سا ملک آپ کے ساتھ کتنا کھڑا ہے اور کس کو آپ کے عوام کی زندگی یا موت سے کتنا سروکار ہے۔

امید ہے کہ اس فہرست سے لوگ خوابوں کی دنیا سے نکل آئیں گے اور اپنی آنکھیں کھولیں گے مگر دوسری طرف ان 111 جہازوں سے اب تک منظر عام پر نہ آنے اور اسے کھلے عام متاثرین میں تقسیم نہ کرنے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ ان 111 جہازوں کا سامان کدھر گیا ہے۔ میں خود ذاتی طور پر اپنے رفاہی و فلاحی ادارہ المبارک فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے ضلع چارسدہ و ضلع پشاور کے متاثرہ علاقوں میں اپنے محدود وسائل کے اندر سیلاب متاثرین کو ریلیف دینے کےلئے فیلڈ کے اندر متاثرین کے درمیان موجود ہوں مجھے تو اب تک مذکورہ علاقوں میں کہیں پر بھی کوئی حکومتی ریلیف کا کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی، میں روز اپنے آس پاس متاثرین کے درمیان رفاہی اداروں کے رضاکار اور ان کے ریلیف سرگرمیاں ہی دیکھ پاتا ہوں، ریاست کا کوئی ایسا سرگرمی جس سے یہ تاثر ملے کہ باہر ملکوں سے آئے ہوئے 111 جہازوں کا سامان فیلڈ میں تقسیم ہوکر ریاست نے زمہ داری نبھائی ہے مگر افسوس کہ ایسا کچھ بھی اب تک نہ میرے مذکورہ اضلاع میں دیکھا گیا نہ ملک کے متاثرہ کسی بھی ضلع میں دیکھی گئی ہیں، ساری دنیا کے ادارے چیخ رہے ہیں کہ پاکستان میں تاریخی سطح کا انسانی المیہ جنم لینے والا ہے اور معاونت کے عمل کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

ایسے حالات میں اگر 111 فلائٹس کا امدادی سامان زمین پر بٹتا ہوا نظر نہ آئے تو یہ نہایت خوف ناک بات ہوگی۔ ہنگامی حالات میں شکوک و شبہات کا سورج سوا نیزے پہ آنا فطری بات ہے۔ ایسے حالات میں اداروں کا فرض ہے کہ شفافیت بڑھائیں اور معلومات کے اجراء میں تیزی لائیں۔ میں تمام متعلقہ حکام سے سوال کروں گا کہ قوم کو بتایا جائے کہ 111 فلائٹس میں کتنا سامان آیا تھا؟۔ سامان میں کیا کیا شامل تھا؟۔ یہ سامان کہاں تقسیم ہوا اور کب؟۔ یہ معلومات عوام کا حق ہیں کیونکہ یہ امداد عوام کےلئے دی گئی ہے ۔ بہتر ہے کہ متعلقہ ادارے خود ہی یہ تمام معلومات جاری کردیں۔ وگرنہ عوام کے پاس دوسرا راستا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ ہے اور عدالتیں ہیں۔

واپس کریں