دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دینی مدارس اور اس کی قانونی حیثیت.
 سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
مدارس دینِیہ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی رہتی ہیں۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نے ایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک خفیہ مدرسہ قائم کیا۔ صبح و شام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں خفیہ انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی و بیرونی صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے۔ یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازم قائم ہوا کہ پھر جہاں جہاں مسجدیں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے۔ اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام، ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔
دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے ، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پناہ گاہیں ، اور اشا عت دین کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں وہاں یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقی طور پر "این جی اوز " یعنی غیر منافع بخش خالص فلاحی و سماجی ادارے بھی ہیں۔ جو لاکھوں طلبہ و طالبا ت کو بلا معاوضہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔
ان دینی مدارس نے ہر دور میں تمام ترمصائب و مشکلات ، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
وطن عزیز پاکستان جو کہ اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرہ پر لاکھوں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت کی قربانیاں دے کر معرض وجود میں آیا تھا جہاں دینی تعلیم کا انتظام ریاست کی ذمہ داری تھی وہاں اس کا انتظام کرنے والی دینی مدارس کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ اور ان دینی مدارس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ نہ جانے کس کی خوشنودی اور اشارہ پر آئے روز دینی مدارس پر چھاپے مارے جارہے ہیں کبھی کوائف طلبی کے نام پر کبھی رجسٹریشن کے بہانے سے کبھی بنک اکاؤنٹس کی بندش کی شکل میں اہل مدارس کو ہراساں کیا جاتا ہے قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر دینی مدارس کے ذمہ داران اور علماء کرام پر سنگین مقدمات قائم کیئے گئے۔ دینی مدارس اور علماء ملک کی نظریانی سرحدوں کے محافظ ہیں، دینی مدارس ہدایت کے سرچشمے ، امن کے گہوارے اور اشاعت دین کا ذریعہ ہیں ان کا دہشتگردی ، تخریب کاری سے کوئی تعلق نہیں ہے مغرب کا پروپگنڈہ ان کے بارے میں بے بنیاد ہے ان دینی مدارس اور علماء کی وجہ سے آج نسل نو کا ایمان محفوظ ہے، دینی مدارس کے طلبہ وحدت کی نشانی اور اتحاد و یکجہتی کا عملی ثبوت ہیں یہ مختلف قومیتوں، صوبوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود دینی مدرسہ کی ایک ہی چھت کے نیچے نورانی اور پاکیزہ ماحول میں اکھٹے رہتے ہیں، ایک ہی برتن میں کھاتے اور پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں، دینی مدارس نے کبھی بھی آئین و قانون کی مخالفت اور مدارس کو رجسٹر ڈ و آڈٹ کروانے سے انکار نہیں کیا، دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے بنک اکاؤنٹ کھلوانے میں خود حکومت رکاوٹ ہے ، حالانکہ ملک کے اندر جس قانونی ایکٹ یعنی سوسائٹی ایکٹ 1860 کے تحت جتنے این جی اوز، آرگنائزیشنز، ٹرسٹ، فاؤنڈیشن کی رجسٹریشن کی جاتی ہے تو اسی ایکٹ کے مطابق دینی مدارس بھی رجسٹرڈ ہیں، اور اسی قانون کے تمام تقاضے پورے کررہےہیں ، جن چارٹرڈ اکاونٹ سے این جی اوز سالانہ آڈٹس کرواتے ہیں انہی اداروں سے دینی مدارس بھی آڈٹ کرواکر خود کو ہر قسم قانونی تقاضے پورے کرنے کےلئے پیش کئے ہوئے ہیں، مگر پھر بھی ملک میں کوئی بھی بینک نئے مدارس کی اکاؤنٹ کھولنے کےلئے تیار نہیں،
لہٰذا حکومت پاکستان سوسائٹیز ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹرڈ تمام اداروں کی طرح دینی مدارس کی قانونی حیثیت اور تشخص کو بھی تسلیم کرکے انہیں کسی بھی نجی و سرکاری بینک میں اکاونٹ کھولنے میں آسانی و نرمی لائیں، محکمہ اوقاف و بیت المال کے سالانہ بجٹ میں دینی مدارس کے طلباء و طالبات کےلئے سکالر شپ و دیگر ضروریات کے سدباب کےلئے بجٹ مختص کرے جو ایسے شرائط و قوانین سے مبرّا ہو جن سے دینی مدارس کے خود دار پالیسی پر انچ نہ آئیں تاکہ دینی مدارس اپنا فلاحی، سماجی، دینی اور تعلیمی سفر جاری رکھیں۔
واپس کریں