سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
گزشتہ دنوں پشاور کے فائیو سٹار ہوٹل پرل کنٹیننٹل (پی سی) پشاور میں صوبائی محتسب برائے ہراسیت خیبرپختونخواہ اور قومی سماجی تنظیم کمیونٹی اپریزیل اینڈ موٹیویشن پروگرام (CAMP) کے تعاون سے ایک روزہ صوبائی کانفرنس برائے حق وراثت خواتین پروپرٹی ایکٹ 2019 کا انعقاد کیا گیا جس میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے فلاحی و سماجی تنظیموں کے سربراہان نے علاوہ وکلاء اور صحافی برادران کی کثیر تعداد نے شرکت کی جبکہ صوبائی محتسب برائے ہراسیت خیبرپختونخوا محترمہ رخشندہ ناز، محترمہ مس سیمی ، سلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سینئیر ریسرچ آفیسر ڈاکٹر مفتی غلام مجید، ڈاکٹر سمینہ افریدی لیکچرر یونیورسٹی اف پشاور، ڈاکٹر نورین نصیر اسسٹنٹ پروفیسر پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ آف پشاور یونیورسٹی، کمیونٹی اپریزیل اینڈ موٹیویشن پروگرام (CAMP) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نوید شینواری موضوع کے مناسبت سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2019 کے حوالے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی اہمیت بیان کی، ایک کالم نگار و سوشل ورکر کی حیثیت سے مجھے بھی اس ایک روزہ صوبائی کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقع ملا،
خواتین کے حقوق خاص طورپر جائیداد میں انکے حصے کے متعلق موجودہ حکومت بھی نئی ترامیم لے کے آئی ہے جسے "انفورسمنٹ آف وومن پراپرٹی رائٹس بِل” کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت خواتین محتسب کو زیادہ اختیار دے دئیے گئیے ہیں کوئی بھی خاتون وراثتی جائداد کی منتقلی میں جسکی حق تلفی ہوئی ہو وہ محتسب کو درخواست دے گی۔ ۔ محتسب جلد از جلد اس پہ ایکشن لے کے عورت کی دادرسی کرے گی یہ شکایت متاثرہ عورت خود یا اسکا کوئی عزیز یا کوئی بھی شہری کر سکتا ہے ہر صورت میں محتسب کاروائی کرنے کا پابند ہوگا۔
اسی طرح جانشینی سرٹیفکیٹ کا اجراء 15 دن کے اندر اندر نادرہ کرے گا قبل ازیں یہ سرٹیفکیٹ سیشن کورٹ جاری کرتی تھی جس کےلئے طویل قانونی پراسس تھا اور وکلاء کی مد میں آمد و رفت لمبی لمبی پیشیوں کی صورت حال اچھے خاصے اخراجات آتے تھے خواتین کے لئیے یہ دشوار گزار مراحل تھے جو اب آسان ہوگئے ہیں۔
اچھا ہے مگر پرنالہ تو وہیں ہے اونٹ کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟
خاتون خود شکایت کرے یا کسی سے کرائے تب ہی محتسب کاروائی کرے گا۔۔۔
"وراثت کی تقسیم” میں خواتین کی حصہ داری اِسلامی شریعہ و قوانین کا اہم باب ہے۔
اسلامی فِقہ میں جہاں ہر شعبہ ِزندگی کے لئیے اصُول و ضوابط وضع کئیے گئے وہیں حقوقِ نسواں کے ضِمن میں بھی گرانقدر اِصلاحات موجود ہیں، وراثت میں خواتین کا حصہ بنیادی حقوق میں سے اہم ترین حق ہے۔
جائیداد میں شرکت میسر ہونے سے عورت مُعاشی طور پہ طاقتور اور توانا ہوتی ہے، مالی تونگری خودمختاری و خوداِنحصاری کی منزل کو قریب تر لاتی ہے۔
مشرقی سماج میں میں عورت کے مسائل کا بڑا سبب مُعاشی خودکفالت کا فُقدان ہے۔
80 فیصد خواتین صرف خود کفیل نہ ہونے کے باوصف مرد کے ظلم و جبر استحصال اور جذباتی بلیک میلنگ کا شکار پائی گئی ہیں۔۔
اگر عورت کو مُعاشی تُحفظ میسر ہوتب وہ زندگی کے فیصلے آذانہ طور پہ اعتماد کے ساتھ اپنے حالات و مزاج سے موزوں تر اور بہتر انداز میں کرنے کی پوزیشن میں آجاتی ہے۔۔
مُعاشی خود اعتمادی و خود انحصاری نہ صرف خواتین کے اپنی طرزِحیات بلکہ اولاد کی تعلیم و تربیت اور بہتر مُستقبل کی تعمیر میں ممد و مُعاون ثابت ہوتی ہے بلکہ شریکِ حیات کی سہولت کا مُوجب بھی بنتی ہے۔
سماجی علوم کی تاریخ پہ طائرانہ نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یونان کے قدیم ترین شہروں ڈیلفی، گورٹن، تھیسلے، میگارا اور سپارٹا میں خواتین کو زمین و جائداد میں وراثت و ملکیت کے حقوق مُیسر تھے۔
تاہم اُس دور کے مابعد خُواتین کا سماجی مقام و مرتبہ بدرجہ اُتم تنزلی کی طرف گامزن ہوا۔
عرصہ دراز تک عورت معاشرے کا غیر اہم بےوقعت جُزو بن کے رہ گئی اور صِنفی لحاظ سے خواتین کو کم ترین درجے پہ پہنچا دیا گیا۔
مشرقی معاشروں کے ساتھ ساتھ مغربی سوسائٹی میں بھی باپ یا بھائی ہی قانونی سربراہ ہوتا تھا جسے مُکمل اختیارات و قوت حاصل ہوتی تھی اور عورت کی حیثیت ثانوی تھی۔
حقوقِ نسواں کے مُعاملے میں اُس تاریک دور میں اِسلام کا ظہور عورت کی مُعاشرتی حالت سُدھارنے کا داعی بنا۔
اِسلام نے خواتین کو ماقبل کے مذاہب اور معاشروں کی نسبت بہتر حقوق اور اختیارات دئیے۔
اسلام میں خواتین کو وارثت سے لیکر عائلی اور خانگی زندگی تک ایک مُکمل و مربوط دائرہِ اختیار دیا ہے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق پہلا بِل 1948 میں منظور ہو جسے 1951میں باقاعدہ نافذالعمل کر دیا گیا۔۔
بعد ازاں مُشرف دور میں اس پر مزید پیشرفت ہوئی اور قانون برائے تحفظِ نسواں ایکٹ 2004 منظور ہوا جس میں حدودآرڈیننس، خواتین کے استحصال، جبری یا قرآن سے شادی، ونی کے قوانین میں اصلاحات کے علاوہ حقِ وراثت سے محرومی کے بارے میں جرائم کا تعین کیا گیا اور باقاعدہ سزائیں تجویز کی گئیں۔
مزید 2012 میں بھی خواتین کو اِیمپاور کرانے کے متعلق اہم اِصلاحات کی گئیں۔
متعلقہ قوانین میں زمین کے مالک کی وفات کے بعد ریونیو آفیسر کو ورثاءکی جانب سے درخواست کا انتظار کئے بغیر وراثت کی مُنتقلی کے عمل کا آغاز کرنے کا پابند کیا گیا۔
طے ہوا کہ ریونیو آفیسر اس عمل کا آغاز نادرا ب فارم کے ریکارڈ کے مطابق کرے گا۔
خیال تھا کہ اسطرح وہ تاخیری حربہ ختم ہوجائے گا جس کی بُنیاد پر خواتین کو ان کے حق سےمحروم کر دیا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ وراثتی انتقال کے لئے ورثاءکے شناختی کارڈ اور ب فارم لازمی قرار دیئے گئے ہیں جن سے جعلی وراثتی دستاویزات بنانے کا سدِ باب کیا گیا۔
ترمیمی قوانین میں زیرالتواء درخواستوں کو چھ ماہ کے اندر نِمٹانے کا وقت مقرر کر دیا گیا۔ وُرثاء کی تصدیق کے عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے کی کوشش کی گئی نیزحکومت نے وراثتی انتقال پر سٹیمپ ڈیوٹی بھی ختم کردی۔
مالکِ جائداد کی وفات کے بعد ورثاءکی طرف سے درخواست دینے کے بعد زمین کی منتقلی کے عمل کا آغاز کیا جانا تھا جس میں نادرا کی دستاویزات کی بجائے درخواست میں شامل ورثاءکو بذریعہ سمن طلب کیا جاتا تھا جس میں کئی ماہ کے بعد اس عمل کا آغاز ہوتا تھا۔
یوں خواتین کی ایک بڑی تعداد اس پیچیدہ طریقہ کار کے پیشِ نظر اپنے حق سے دستبردار ہو جاتی تھیں۔
بعد ازاں وقتاً فوقتاً ان قوانین میں بہتری لائی جاتی رہی اور بنیادی پروسیجر کو کافی حد تک آسان بنایا گیا۔
دفعہ 498/A قانون حقِ وراثت کے تحت قانونی اور شرعی لحاظ سے بعداز مرگ پہلا کام اسکے ذمہ اگر کوئی قرض تھا تو فوتیدہ کی جائیداد میں سے سب سے پہلے وہ قرض ادا کیا جائے اور مرنے والے کی بیوہ (اگر ایک سے زیادہ بیویاں تھیں تو تمام بیوگان) کا حقِ مہر ادا کیا جائے۔
اگر مرنے والے کی کوئی اولاد نہیں تو بیوہ کو کل جائیداد کا چوتھا حصہ اگر اولاد ہے تو بیوی کو کل جائیداد کا آٹھواں حصہ ملے گا۔
اگر وہ شوہر کی وفات کے بعد ُسُسرال میں نہیں رہتی تو بھی جائیداد میں اس کا حصہ پہ فرق نہیں پڑے گا۔
اسی طرح اگر وہ شوہر کے مرنے کے بعد دوسری شادی کرلیتی ہے تب بھی وہ اپنے پہلے شوہر کی جائیداد میں ناقابلِ واپسی حصہ کی بدستور حقدار رہے گی۔
بیوہ خاتون وراثت میں ملنے والی اپنے حصے کی جائیداد کو فروخت کرسکتی ہے یا جس طرح چاہے استعمال کرسکتی ہے اس پہ کسی طرح کی قدغن نہیں لگائی گئی۔
اگر مرنے والے کا کوئی بیٹا بھی ہے تو ہربیٹی کو بیٹے کے ملنے والے حصے کا کم از کم آدھا حصہ ضرور ملے گا یعنی اگر بیٹے کو زمین میں سے دس کنال کا حصہ ملتا ہے تو ہر بیٹی کا حصہ پانچ کنال ہوگا۔
اسی طرح اگر بیٹے کو نقد رقم ایک لاکھ ملتی ہے تو ہر بیٹی کو پچاس ہزار ملیں گے اور دونوں کا جائیداد میں اسی تناسب سے حصہ مقرر ہے۔
اس قانون کے تحت ہر وہ شخص جرم کا مُرتکب قرار دیا جائے گا جو کسی جائداد کے مالک کی بعد ازوفات حصہ دار عورت کو دھوکہ دہی یا کسی بھی صورت میں جائداد سے محروم کرنے کی کوشش کرے گا۔
عورت حق نہ ملنے کی صورت میں مقدمہ درج کروا سکتی ہے اور قانون کے تحت مُجرم کو 10 سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا ہو گی جو کسی بھی صورت 5 سال سے کم نہی ہو گی۔
اِن سب قوانین کی موجودگی کے باوجود عورت کے استحصال میں سرمُو کمی واقع نہ ہو سکی۔
وہ بدستور زمین جائیداد و وراثت سے محرومی کا شکار ہیں۔
اِسکی بنیادی وجہ قانون سازوں کا سماج میں عورت کے مقام و مرتبے، باہم رشتوں کی نزاکت سے متعلق زمینی حقائق سے نابلد ہونا یا دانستہ اِسے نظر انداز کرنا ہے۔
جائیداد میں حصہ مانگنے والی عورت کو معاشرے میں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ایسی عورت خاندان خاص کر میکے میں اچھوت بن کے رہ جاتی ہے، بھائیوں سے اسکا رشتہ ختم سمجھا جاتا ہے۔
"کس قدر سِتم ظریفی ہے کہ عورت اپنے خونی رِشتے اپنا حق ترک کر کے قائم رکھ پاتی ہے”
انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2019 صوبائی قانون سازی اورانفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020 قومی اسمبلی قانون کے ذریعے خواتین اپنی وراثت با آسانی حاصل کرسکتاہے،
اسطرح عورت گھر بیٹھے باعزت طریقے سے وراثت وجائیداد میں اپنا جائز اور قانونی حق حاصل کرسکے گی اور معاشرے میں اسکا احترام بھی قائم رہے گا۔
بجا طور پہ یہ اِقدام عورت کو معاشی طور پہ خود کفالت کی منزل سے ہمکنار کرنے کا سبب بنے گا۔
صوبائی محتسب برائے ہراسیت خیبرپختونخواہ اور قومی سماجی تنظیم کمیونٹی اپریزیل اینڈ موٹیویشن پروگرام (CAMP) انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس کے حوالے قبائلی اضلاع میں آگاہی مہم چلا رہی ہے جو کہ احسن اقدام ہے۔
واپس کریں