سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
شبقدر کو اگرغیر مستند، غیر تربیت یافتہ صحافیوں کاگڑھ کہا جائے تو غلط نہیں، یہاں ہر دوسرا بندہ صحافی اور ہر تیسرا گھر یا دوکان پرائیویٹ ٹی وی چینل بنتا جارہا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے اینکرپرسن سرزمین شبقدر پر ابھر رہےہیں جو شائد جرنلزم کے قوانین، علم اور اوصول وضوابط سے آگاہ نہ ہونے کی بنیاد پر بغیر جرنلزم ڈگری کے صحافی بنے ہوئے پھرتے ہیں۔ شبقدر میں ہیلتھ کلینک سے لیکر ریڑھی بانی تک کا کاروبار قانونی تقاضوں کاپابند بناکے رکھا ہے لیکن افسوس کہ اب تک صحافت کےلئے اسسٹنٹ کمشنر آف شبقدر کے آفس سے کوئی قانونی پروانہ جاری نہ ہوسکا جس کی بنیاد پر شبقدر میں غیر قانونی صحافت کو روکا جاسکے۔
1973 کے آرٹیکل 19 کے قانون کے تحت پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) شوکاز جاری کرنے اور کونسل آف شکایات کی ہدایت پر کسی بھی غیر قانونی چینل ، پروگرام اور غیر مستند اینکرپرسن کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے، پاکستان جرنلسٹ ایسوسی ایشن (پی جے اے) مقرر کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق جرنلسٹ کو رجسٹر کروانے کا پابند بناتا ہے اور اس کے اسناد کے جانچ پڑتال کرکے اسے قانون کے دائرہ کار میں لانے کےلئے سخت اقدامات کرنے کا مجاز ہے،غیر قانونی صحافی کو قانون کے کٹہرے میں لانےکےلئے پی جے اے کی رجسٹریشن لازمی ہے جو کسی بھی غیر قانونی صحافت کا راستہ روک کر اسے معاشرے میں انتشار پھیلانے سے روکتا ہے۔
لیکن افسوس کہ شبقدر میں افسران بالا کے غفلت کی وجہ سے اب تک یہ قانون عملی بنیاد پر لاگو نہیں ہوسکا اور نہ انہوں نے اس طرف توجہ دینے کی کبھی کوشش کی ہےجس کا نتیجہ ہر روز نئے نئے اینکرپرسن کا نئے لوگو (logo) کے ساتھ انٹرویوز کے صورت میں ہمارے سامنے آرہاہے جو غیر مستند اور غیر تربیت یافتہ ہونے کے بنیاد پر معاشرے کے اصلاح کے بجائے معاشرے کے مزید بگاڑ، انتشار اور اضطراب کاسبب بن رہےہیں۔
صحافت محض ایک پیشہ یا ایک ذریعہ معاش نہیں، بلکہ ارباب صحافت پربہت سی قومی و مذہبی ذمے داریاں عاید ہوتی ہیں۔ اسلامی معاشرے میں خیر اور بھلائی کو فروغ دینا اور شر اور برائی کا سدباب کرنا پریس کی ذمے داری ہے۔ صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں سب سے اہم ذمے داری غلطی سے پاک اور ایمان داری سے خبر دینا ہوتا ہے۔ صحافتی ذمے داریوں کے دوران کئی ایسے مواقع بھی آتے ہیں، جہاں سچ لکھنا یا بولنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور صحیح صحافی وہی ہے جو ہر حال میں حق اور سچ کا ساتھ دے۔
میرا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ شبقدر کے سرزمین پر صحافت کے شعبے میں دیانتدار ، ایماندار اور اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنے والے صحافی موجود نہیں،ایسا ہو نہیں سکتا کہ یہ سرزمین بے داغ صحافت سے خالی ہو لیکن یہاں پر صحافت میں کچھ لوگ ایسے بھی شامل ہوگئے ہیں، جو صحافت کے اصولوں سے انحراف کر رہے ہیں۔ صحافی مجموعی طور پر غیرجانبدار ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ یہاں میڈیا پر غیرجانبداری کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مختلف جماعتوں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں، جن کے مفادات مختلف جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ حق بات کرنے کے بجائے مخالف جماعت پر بے جا الزامات لگانا اور اپنی جماعت کے تمام عیوب کو چھپانا ان ’’صحافیوں‘‘ کا وطیرہ ہوتا ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ غیرجانبداری کی دھجیاں اڑا کر بھی یہ لوگ خود کو صحافی کہتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی صحافت میں شامل ہوگئے ہیں، جن کا صحافت سے وابستہ ہونے کا مقصد صرف اور صرف مفادات حاصل کرنا ہے۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ عوام کے حقیقی مسائل کیا اور ان کا حل کیا ہے۔
شبقدر میں اہل صحافت کا ایک گروہ وہ بھی ہے جس کا مطمع نظر عوامی مقبولیت اور عوام کی تحسین وآفرین کا حصول ہے، یہ گروہ عوام کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے اور ہر ایسی بات کہنے سے پرہیز کرتا ہے جس سے عام لوگوں کی تعریف وتوصیف حاصل نہ ہوسکے۔ حالانکہ صحافی کی حیثیت ایک قائد کی طرح ہوتی ہے، جو صرف وہی بات کرے جو قوم کے مفاد میں ہو، جس سے معاشرے میں بہتری آنے کی امید ہو۔
آخر میں میرا گزارش ہے کہ شبقدر کے مستند، تربیت یافتہ اور قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ صحافی اپنے ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے شبقدر کے سطح پر مقامی یونینز سے ایسے قوانین کا اجراء کرے جس کے ذریعے غیر مستند و غیر قانونی صحافت کا راستہ روک کر حقیقی صحافت کا بول بالا ہوجائے۔
واپس کریں