سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
گزشتہ دنوں تحصیل شبقدر سے تعلق رکھنے والے بااعتماد، مستند اور معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے سماجی و فلاحی اداروں کا ایک مشترکہ اجلاس ٹی ایم اے ہال شبقدر میں منعقد ہوا جس میں تحصیل بھر سے ٹاپ پوزیشن پر فلاحی و سماجی خدمات انجام دینے والے معروف فلاحی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی، اجلاس کا مقصد تحصیل شبقدر کے تمام سماجی تنظیموں کا متحدہ نیٹ ورک بنا کر ایک پلیٹ فارم سے شبقدر میں فلاحی خدمت کو وسیع تر بنانا ہے، خیبر پختونخواہ کے پسماندہ اضلاع میں 2004 سے فلاحی و سماجی خدمات میں مصروف عمل المبارک فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی حیثیت سے میں نے بھی موقع کے مناسبت سے معروضات پیش کی جبکہ معروف سماجی شخصیت صوبائی واپڈا کلکٹر سید اکرام شاہ، شمع آرگنائزیشن کے چیئرمین سید دلاور شاہ، دوآبہ فاؤنڈیشن کے چیئرمین عارف احسان ، مولانا احسان اللہ فاروقی، شبقدر کے سینئیر صحافی احمدعلی ، خیر خیگڑہ تنظیم کے چیئرمین سجاد اسد مٹہ نے خطاب کرتے ہوئے معاشرے میں فلاحی اداروں کے اہمیت اور کردار کو اجاگر کیا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ فلاحی ادارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے یا حکومت عوامی فلاح و بہبود کے معاملات کو نظرانداز کرے تو یہ ادارے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔ یہ فلاحی تنظیمیں معاشرے کا حسن ہوتے ہیں۔ تاریخ کی اولین داستانوں سے لے کر موجودہ دور تک ایسے کئی ادارے یا شخصیات ہیں جو حکومت وقت کا سہارا بنتے ہیں اور عوام الناس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرتے ہیں۔۔
یہ ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بھی اپنی خدمات دیتے ہیں۔ چاہے کوئی ملک پسماندہ ہو، ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، ان اداروں کی موجودگی وہاں اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ فلاحی اداروں کا موجود ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے راستے ہموار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں بھی بے شمار فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔
ان اداروں کی تشکیل کے پیچھے کسی نا کسی شٰخص کا ایک خواب چھپا ہوتا ہے جو ان کے قیام کی وجہ بنتا ہے۔
یہ فلاحی ادارے صحت، تعلیم، صاف پانی کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور خوراک کی تقسیم جیسے عظیم مقاصد پر کام کر رہے ہیں جو درحقیقت حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ان فلاحی اداروں سے منسلک افراد دن ہو یا رات آندھی ہو یا بارش یا وبائی امراض ہوں، یہ بہادر لوگ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور صرف انسانی خدمت کو یاد رکھتے ہیں اور خدمت و فلاحی کاموں کو اہمیت دیتے ہیں اور خدمت کے کاموں کو عملی طور پر جاری رکھتے ہیں تاکہ دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے۔ ان اداروں میں سے کچھ ادارے ملکی سطح پر کام کرتے ہیں اور کچھ ادارے علاقائی سطح پر ان نیک کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ ہمارے آس پاس کئی شخصیات ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو حل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان میں جتنی استطاعت ہو وہ فلاحی کاموں میں مصروف رہ کر اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ غریبوں کی دعائیں بھی سمیٹتے ہیں۔ بڑے شہروں میں اپنے دفاتر قائم کرنے اور فلاحی کاموں میں مصروف عمل تنظیمیں چھوٹے شہروں یا قصبوں تک رسائی حاصل نہیں کرتیں اور وہاں موجود ضرورت مند افراد امداد کی راہ تکتے رہتے ہیں۔
لیکن گاؤں کی سطح پر مصروف عمل تنظیموں کے ہونے سے کسی بھی مشکل میں رفاہی کاموں کا دائرہ کار گلی محلوں تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ایسے بہت سے ادارے ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق دکھی انسانیت کی خدمت اور مسائل میں گھرے آبادی کے حصے کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور ان کے وسائل میں اضافے کے لیے عطیات کی فراہمی کو ممکن بنانا اور ان کا ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حالات اور درپیش چینلجز کی وجہ سے ایسے فلاحی اداروں کا دائرہ کار مختصر ہو رہا ہے، ان کے فنڈز میں کمی آ رہی ہے جس کے باعث بہت سے محتاجوں کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ان فلاحی اداروں کو مضبوط کیا جائے اور ان کی معاونت کی جائے تاکہ کوئی غریب انسان کسی کے دروازے پر کشکول تھامے نا کھڑا ہو بلکہ اس کی ضرورت اس کے دروازے پر پوری ہو جائے۔
واپس کریں