دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سرکاری سطح پر مخلوط مجرے کا اہتمام اور اسلام کا نقطہ نظر!
 سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
حکومت کی طرف سے کوئی بھی منعقدہ تقریب کے روداد ریاست کی نظریہ پر دلالت اور اس کی اساس و ویژن کی عکاسی کرتاہے، گزشتہ دن سرکاری سطح پر منعقدہ جشن آزادی کی تقریب میں بے ہودہ اور فحش مجروں کا اہتمام ایک اسلامی ریاست کے نظریہ کی برعکس اقدام تھا جس پر موجودہ حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا لازمی بات ہے، حکومت میں شامل کابینہ کے تمام ارکان چاہے جس پارٹی سے تعلق رکھتا ہو سب کے سب اس قبیح حرکت اور گناہ کبیرہ میں شریک ہیں کیونکہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ حکومت کی طرف سے معمولی سی تقریب پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق ہوتاہے اور اس کےلئے منظور شدہ بجٹ نطرثانی سے گزر کر منظور ہوتاہے، مولانا اسعد محمود بیٹھا تھا یا اٹھ گیا تھا یہ کوئی معانی نہیں رکھتا، معنیٰ خیز بات یہ ہے اب تک حکومت میں شامل مذہبی جماعت جے یو آئی کے سربراہ کا کوئی مذمتی بیان تک نہیں آیا تاکہ ان کی نظریہ پاکستان کے دفاع اور ملک کو مکمل اسلامی ریاست کےلئے جاری جدوجہد کے دعوؤں کو سچا ثابت کرے، ڈی چوک سے لیکر ہر سیاسی جلسے میں عمران کی جماعت پی ٹی آئی نے ناچ گانوں اور مخلوط مجروں میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی ہے مگر یہ سب کچھ ان کے جماعتی نظریہ تک محدود ہے، وہ پارٹی کے خرچے سے یہ سب کچھ کررہاہے تو وہ گناہگار ضرور ہے مگر رعایا کی طرف سے ان سے جواب طلبی رعایا کا حق نہیں بنتا،بحیثیت مسلمان ان کے جلسوں میں مخلوط ناچ گانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتاہے، ہمیں کھل کر وسعت قلبی کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ مجروں کی جماعت کے طور پر معروف پی ٹی آئی کی حکومت نے سرکاری سطح پر منعقدہ تقریبات میں کبھی ایسا بے ہودہ اور قبیح حرکت نہیں کی۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اس قبیح حرکت پر پوری قوم سے معافی مانگے کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور نظریہ پاکستان اسلام کی اساسی بنیادوں کے عین مطابق ہے،
اسلام میں موسیقی اور گانے بجانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے واضح الفاظ میں اس حوالے سے وعید کا تذکرہ کیاہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:" میرى امت میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا ہونگے جو شرمگاہ [زنا] ’ ریشم ’ شراب اور گانا وموسیقی کو حلال کرلیں گے" یہ دل میں نفاق پیدا کرنے اور انسان کو ذکرالہی سے دور کرنے کا سبب ہے۔ ارشادِباری تعالی ہے :﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ﴾...... سورة القمان" لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو لغو باتو ں کو مول لیتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے مذاق بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے"جمہور صحابہ وتابعین اور عام مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے جس سے مراد گانا بجانا اور اس کا ساز وسامان ہے او ر سازو سامان، موسیقی کے آلات او رہر وہ چیزجو انسان کو خیر او ربھلائی سے غافل کر دے اور اللہ کی عبادت سے دور کردے۔ اس میں ان بدبختوں کا ذکر ہے جو کلام اللہ سننے سے اِعراض کرتے ہیں اور سازو موسیقی ، نغمہ وسرور او رگانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد بھی یہی ہے کہ آلات ِطرب وشوق سے اپنے گھروں میں لاتے ہیں اور پھر ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں- لہو الحدیث میں بازاری قصے کہانیاں ، افسانے ، ڈرامے، ناول اورسنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کے پر چار کرنے والے اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات، ریڈیو، ٹی وی،وی سی آر ، ویڈیو فلمیں ،ڈش انٹینا وغیرہ بھی۔
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں غمی و خوشی ہر طرح کے حالات کے لیے مستقل احکامات دیےگئے ہیں ، اور ایک مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی اپنے دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ اپنی ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے، چنانچہ خوشی کی سبب منعقدہ تقریبات کے موقع پر شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا، موسیقی اور شور ہنگامہ کرنا وغیرہ یہ سب ناجائز امور ہیں ۔ ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں ہرگز اس تقریب میں شرکت کے لیےنہیں جانا چاہیے، البتہ اگر مدعو شخص کوئی عالم و مقتدا ہو اور اسے امید ہو کہ وہ اس تقریب میں جاکر معصیت کے ارتکاب کو روک سکتا ہے تو اسے جانا چاہیے؛ تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ سے بچ جائیں۔

اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہوجائے تو واپس لوٹ آئے،اندر نہ جائے، البتہ اگر اندر جاکر اس معصیت کو بند کرنے پر قادر ہو تو اندر جاکر اس معصیت کو بند کروادے۔

اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پر قدرت بھی نہ ہو تو مدعوشخص اگر عالم و مقتدا ہو تو وہ وہاں نہ بیٹھے، بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے، کیوں کہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم اور دین کا استخفاف (اہانت اور توہین) ہے۔
واپس کریں