دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کائنات کی وسعت میں فکر وتدبر
 سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی
گزشتہ ہفتہ ناسا نے جیمز وَیب اسپیس ٹیلی سکوپ کی بنائی گئی تصاویر شئیر کیں ہیں جو سائینسی تحقیق کے اہم ترین باب کھلنے کےلئے مزید پیش قدمی کا آغاز ہے۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے خلا میں لئے گئے تصاویرکل سے تقریباً ہر پلیٹ فارم پر موضوع بحث ہیں۔
غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذرِیعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

جب ہم کسی بھی سمت دیکھتے ہیں تو کائنات کے سب سے دور نظر آنے والے علاقوں کا فاصلہ لگ بھگ 46 ارب نوری سال کے فاصلے جتنا بنتا ہے۔ اس کا قطر 540 سیکسٹیلین (یا 54 کے بعد 22 زیرو) میل ہے۔ لیکن یہ اصل میں صرف سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کا ایک بہترین اندازہ ہے۔ کوئی بھی نہیں جانتا ہے کہ کائنات کتنی وسیع ہے۔

اﷲ ربّ العزّت نے قرآنِ مجید میں سینکڑوں مقامات پر کائنات میں غوروفکر کرنے اور اُس میں پوشیدہ اَسرار و رُموز سے آگہی کے نتیجے میں خدائے بزرگ و برتر کی معرفت کے ساتھ ساتھ کائنات میں اپنی بے ثبات حیثیّت کا تعین کرنے کا حکم بھی دِیا ہے۔اگر ہم قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر غور و فکر کریں تو صحیح معنوں میں قرآنی علوم کے نور سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔
آسمان کی وُسعت میں کروڑوں اربوں ستاروں سمیت بے شمار اَجرامِ فلکی موجود ہیں۔ اُن کے مُشاہدے کے دَوران دَراصل ہم اُن کے ماضی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے سب ماضی ہے۔ ہر ستارہ ہمیں اپنے ماضی کی مختلف جھلک دِکھاتا ہے جو دُوسرے ستاروں کے قابلِ دِید زمانے سے یکسر مختلف ہوتی ہے، گویا ہم کائنات کے مختلف گوشوں میں واقع کئی اَدوار کا بیک وقت مُشاہدہ کرتے ہیں۔
اربوں سال پرانی روشنی کے ساتھ چمکتے ہوئے کہکشاں کے جھرمٹ کی تصویروں نے ہم سب کو گہری سوچ میں ڈال دیا ہے کہ ہماری کائنات کتنی وسیع ہے، ہماری زمین کتنی چھوٹی ہے، ہماری زندگی کتنی مختصر اور قیمتی ہے، ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے اردگرد کے درپیش چیلنجز کے باوجود ہمیں یہ لمحے دیکھنے کو ملے
واپس کریں