دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بابائے حریت سید علی شاہ گیلانی ؒکا جسم اگر کشمیر تھا تو دل پاکستان
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
قابض بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ، ناتواں وجود کے باوجود سب سے توانا آواز، برسوں کی قید و نظربندی کے باوجود دنیا کے ہر گوشے میں گونجنے والی بازگشت، بابائے حریت سید علی شاہ گیلانی کہ جنھوں نے ایام اسیری میں ڈھائے جانے والے مظالم کے باوجود ہرقسم کی مراعات، پیشکشوں کو ٹھکراتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے لیے اپنی زندگی کے قیمتی ترین ماہ وسال قربان کردیے۔ سید علی شاہ گیلانی کا پاکستان سے تعلق محض روحانی و قلبی ہی نہ تھا وہ اس سرزمین سے ہی فارغ التحصیل تھے۔ انھوں نے اپنی گریجوایشن لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے اورنٹیل کالج سے مکمل کی اور جب وطن لوٹے تو اپنے دیس کے سرسبز مرغزاروں پر دندناتے قابض بھارتی فوج کے ناپاک قدموں کی دھمک نے ان کے ذہن کو سخت مشتعل کرڈالا۔ وہ اولین طور پر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور پھر اس کے پلیٹ فارم سے کشمیر میں دراندازی کرنے والوں کے خلاف ایسی جدوجہد کی بنیاد رکھی جومسلسل کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ وہ عملی جہاد کا بھی حصہ رہے اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم سے آزادی پسندوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ہر دوطریق یعنی گوریلا جنگ اور مذاکرات کے ذریعے حصول آزادی کی کوششوں میں مگن رہے۔ ان کا تعلق سرینگر سے متصل ضلع بارہ مولا کے قصبہ سوپور سے تھا۔ سوپور ہی میں ایشیا کی دوسری سب سے بڑی فروٹ منڈی ہے۔ یہ قصبہ ”ایپل ٹاؤن“ کے نام سے بھی معروف ہے۔ اس قصبہ کے قریب ہی میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل ”وولر“ بھی موجود ہے۔ سید علی گیلانی نے ”وولر کنارے“ کے نام سے ایک کتاب بھی تصنیف کی۔ ان کی جہاد آزادی پر مشتمل عملی زندگی کی روداد ایک دوسری تصنیف ”رودادِ قفس“ پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے ایام ِ اسیری کے دوران پیش آنے والے واقعات خاص طور پر بھارتی ظلم وجبر، سازشوں، کشمیر پر قبضہ مستحکم کرنے کی پالیسیوں اور دیگر امور کا بڑی گہرائی اورگیرائی سے ذکرکیا ہے۔ یہ کتاب بھارتی سورماؤں کے لیے بڑی ہزیمت کاباعث بنی رہی جس کی پاداش میں علی گیلانی کو مزید مصائب و مشکلات بھی جھیلنا پڑیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مشن پر کاربند رہے۔

سید علی گیلانی کے داماد،نئی دہلی بھارت میں مقیم معروف کشمیری صحافی افتخار گیلانی اپنے مضمون ”علی گیلانی۔۔ہمارے اباجی“ میں لکھتے ہیں کہ سید علی شاہ گیلانی ؒ نے اگرچہ جوانوں کو آزادی کے لیے متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود و ہ نوجوانوں پر زور دیا کرتے تھے کہ انھیں جذباتی پن سے دور رہتے ہوئے تحریک حریت کے لیے منظم ہوکر کوششیں کرنا چاہئیں۔ ان کا موقف تھا کہ چونکہ ہمارے پاس وافر اسلحہ، گوریلا طاقت اور بھارتی فوج سے لڑنے کی صلاحیت نہیں اس لیے ہمیں ایک ایسے انداز میں اپنے مشن پر کاربند رہنا چاہیے کہ جس سے ہمارا جانی ومالی نقصان نہ ہو اور نہ قابض فوج کے پاس ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی بہانہ ہو۔ اس لیے شاہ جی جوانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر وہ کبھی احتجاج کریں تو انھیں چاہیے کہ وہ سڑک بند کرکے پرامن احتجاج کریں۔

علی شاہ گیلانی زندگی کے آخر تک اسی مشن پر کاربند رہے۔ انھیں معلوم تھا کہ جذباتی پن ہمیں وقتی طور پر فائدہ تو دے سکتاہے لیکن منظم رہنمائی نہ ہونے کے باعث بعدازاں یہ ہمارے لیے بے حد نقصان اور خسارے کا باعث بنے گا۔وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ بھارت حریت رہنماؤں اور آزادی پسندوں کو راستے سے ہٹانے کی پالیسیوں پر گامزن ہے اور ہمیں ہرصورت چاہیے کہ ہم بھارت کی اس پالیسی کا بڑی حکمت عملی سے مقابلہ کریں۔ اگرچہ کئی لوگ شاہ صاحب کے اس موقف کی مخالفت بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ شاہ صاحب گوریلا جنگ یا مسلح تحریک حریت کے مخالف تھے۔ ان کی اپنی جماعت، جماعت اسلامی کی ذیلی مجاہدتنظیم حزب المجاہدین نے اسی کی دہائی کے آخر میں مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا تھا جس نے قابض بھارتی فوج پر متعدد ایسے کاری وار کیے جس نے اسے واویلا کرنے پر مجبور کردیا۔
زندگی کے آخری برسوں کے دوران جب سید علی شاہ گیلانی کی نظربندی کو کافی عرصہ بیت گیا۔ انھیں جامع مسجد میں عام نماز تو کجا، نماز جمعہ اور عیدین کی ادائی کی بھی اجازت نہ دی گئی، لیکن ان حالات کے باوجود بھی شاہ صاحب کے پائے استقامت میں ذرابرابر لغزش نہیں آئی۔بھارتی حکام ان پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ ہندوستان کی مخالفت سے دستبردار ہوجائیں یا پھر پاکستان کی حمایت ترک کردیں لیکن شاہ صاحب جو اب اسی برس سے بھی اوپر کے ہوچکے تھے، نے اعلان کردیا کہ ”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہماراہے۔“ شاہ صاحب کا یہ قول اب ضرب المثل کی حیثیت اختیا رکرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے ہر مسلمان کی زبان کا ورد اور دل کی آواز بن چکا ہے۔ شاہ صاحب کے اس محبانہ اور عقیدت مندانہ جذبے کا پاکستان بھر میں فقید المثال خیر مقدم کیا گیا۔ پاکستان کے ساتھ غیرمشروط و غیرمتزلزل محبت و عقیدت کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انھیں دوبرس پیشتر پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز ”نشان پاکستان“ سے بھی سرفراز فرمایا۔ یہ اعزاز صرف شاہ صاحب کے لیے ہی نہیں، جموں وکشمیر میں بسنے والے ہر اس شخص کے لیے فخر وانبساط کا باعث ہے جو علی گیلانی اور پاکستان سے محبت کرتاہے۔

شاہ صاحب کئی برس تک مسلسل نظر بند رہے۔ انھیں سانس کی تکلیف شروع ہوئی توعلاج معالجے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والا اپنے وطن کی آزادی کے لیے پون صدی سے مسلسل مصروف کار بظاہر ناتواں لیکن آہنی جذبوں کامالک یہ شخص آخرکار یکم ستمبر2021 کی رات اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ ان کے جسد خاکی سے بھی بھارتی فوجی خطرہ محسوس کرنے لگے اور وفات کے فوری بعد نہایت خاموشی کے ساتھ نامعلوم مقام پر ان کی تدفین عمل میں لائی تاکہ ان کی رحلت کی خبر پا کر کشمیری عوام اپنے گھروں سے باہر نہ نکل آئیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں نے ان کی وفات کا بھرپور سوگ منایا۔ جگہ جگہ تعزیتی ریفرنس منعقد کرتے ہوئے جہاں ان کی شاندار خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا وہاں بھارتی حکومت کے نہایت بزدلانہ فعل کی بھی بھرپور مذمت کی گئی۔ علی شاہ گیلانی زندگی بھر جس نظام سے لڑتے رہے، آج ان کے جانشین اس راہ پر پورے جوش وخروش سے گامزن ہیں ہیں۔ انھوں نے کشمیر اور پاکستان کے لازوال رشتوں کو پروان چڑھانے میں جو کردار ادا کیا، آج ان کے چاہنے والے اس تعلق کو مزید مستحکم اور مضبوط کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ ہر سال جب بھی سید علی شاہ گیلانی کی برسی منائی جائے گی یہ تعلق پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط اور توانا ہوکر سامنے آئے گا۔ علی شاہ گیلانی کی پاکستان سے محبت و انس کو سمجھنے کے لیے صرف ایک جملے میں پوری بات سمیٹی جاسکتی ہے کہ ان کا جسم اگر کشمیر تھا تو ان کا دل پاکستان
واپس کریں