دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نوجوان مجاہد کمانڈربرہان مظفروانی شہید ؒ
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
تحریک آزادیئ کشمیرکاتذکرہ برہان مظفروانی کے بغیر ادھورا ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں تو تحریک آزادیئ کشمیر کا دوسرا نام ہی برہان وانی شہید ہے۔ نوجوان کشمیری مجاہد کمانڈر برہان مظفروانیؒ جرأت و بے باکی، صلاحیت و قابلیت، عظمت و سیادت اور ایثار وقربانی کا وہ زبردست پیکر ہے جس مثال آزادی کی تحریکوں میں بہت کم سامنے آئی ہے۔ برہان کی اس مثال نے دنیا کوحیراں و پریشان اور بھارت کو انگشت بدنداں کردیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس تحریک کو کچلنے کے لیے اس نے ہر قسم کے حربے آزما ڈالے ہیں اور جس کے خاتمے کے لیے اس نے نسلوں پر مشتمل پالیسیاں تشکیل دی تھیں اور منصوبے بنائے تھے، وہ اپنی تمام تر قوت، جرأت و بے باکی کے ساتھ تیسری کے بعد چوتھی نسل میں بھی منتقل ہوگئی ہے۔ یہ نوجوان برہان مظفروانی تھا جس نے محض 22سال کی عمر میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیا جس کی نظیرنہیں ملتی۔
اُس نے اپنے پیش رؤں کے قدم پر چلتے ہوئے تحریک آزادی کو نیاولولہ اور نیاجوش عطاکرتے ہوئے اِسے بھارتی ہتھکنڈوں اور ظلم وجبر کے نت نئے حربوں کے باجود اس طرح ایک نئی ڈگر پر ڈال دیا کہ جس کے بارے میں پورے بھارت کے دانشور تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی انہیں اندازہ تھا کہ سنگینوں کے سائے تلے، جب ہر لمحہ جان کے چلے جانے کا دھڑکالگاہو، یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیری نوجوان ایک جانب بندوق ہاتھوں میں تھام کرہر قسم کے بھاری ہتھیاروں سے لیس فوج کے روبرومقابلہ کریں اور ساتھ ساتھ دوسرے کشمیری نوجوانوں کو جہاد اور آزادی کی تبلیغ وتلقین کرتے ہوئے انہیں بھی ہاتھوں میں بندوق اٹھائے گھروں سے نکل کر فوج سے مقابلے کے لئے تیار کریں۔ یہ معرکہ اور کارنامہ برہان نے سرانجام دیا۔
وہ جب بھی فوج سے مقابلہ کرتا، تو اس کی ویڈیوز اور تصویریں اُسی لمحہ سوشل میڈیا پر ڈال دیتاجوآناًفاناً ریاست اور ریاست سے باہر تک پہنچ جاتیں۔ اس کام کا دوہرافائدہ ہوتا۔ ایک تو کشمیری نوجوانوں میں آتشِ انتقام کی چنگاری اور زیادہ سلگنے اور دہکنے لگتی اور دوسرا کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے بیرونی دنیا کو بخوبی آگاہ ہوجاتی۔ برہان تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور اُسے معلوم تھا کہ سوشل میڈیا کو اپنے قومی مقصد کے لئے کس طرح استعمال کرنا ہے اور پھر اُس نے جدید ٹیکنالوجی سے لیس اس میڈیم کو تحریک آزادی کو اجاگر کرنے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا یہاں تک کہ مرکزی سرکار نے مجبور ہوکر وادی میں کئی کئی دن تک مواصلاتی نظام بالخصوص انٹرنیٹ بند کرنے کے حربے اختیار کرنا شروع کردیے۔ چنانچہ جب کبھی فوج کسی علاقے کا کریک ڈاؤن کرتی، کرفیونافذ کرتی یا کہیں مجاہدین سے مڈ بھیر ہوجاتی تو فوری طور پر انٹرنیٹ بند کیے جانے کے احکامات جاری ہوجاتے۔ مقصد تھا کہ ظلم وجبر کرنے اور آتش وآہن برسانے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر گردش نہ کرسکیں لیکن برہان نے اس کا بھی توڑ نکال لیا تھا۔ وہ فوری طور پر ایسے علاقے میں جاپہنچتاجہاں انٹرنیٹ کی سروس جاری ہوتی اور اس طرح وہ اپنے مقصد میں بخوبی کامیاب ہوتاچلا گیا۔
برہان کو معلوم تھا کہ آج کے نوجوان سوشل میڈیا کو خوب استعمال کرتے ہیں اور اپنی آواز کو بلاروک ٹوک بیرونی دنیا تک پہنچانے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ فی زمانہ نہیں۔ اُس نے اس میڈیم کے ذریعے نوجوانوں کے دلوں میں موجودجذبہ آزادی کی چنگاریوں کوسلگایا، بھڑکایااور پھر انہیں اس طرح آتش بنادیا کہ آج جبکہ برہان موجود نہیں لیکن اس کے لاکھوں جانثار تحریک آزادی کو اپنے ولولہ تازہ کے ذریعے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس کی آبیاری میں اپنا خون بھی ڈال رہے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ آج کی اس تحریک میں ننھے منے بچے بھی شامل ہیں۔ جب برہان کی شہادت ہوئی تو لاکھوں لوگ احتجاج کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے، جن میں ننھے بچے بھی شامل تھے۔ قابض فوج کے لئے ان مظاہرین پر قابو پانا اور انہیں واپس گھروں میں دھکیلناممکن نہ رہا تو انہوں نے نہتے لوگوں پر پیلٹ گن سے فائرنگ شروع کردی۔ یہ چھرے مظاہرین کی براہ راست آنکھوں پر لگے اور یوں وہ بینائی سے محروم ہوگئے۔ ایک جانب اگر جدوجہد آزادی ئ کشمیر ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی تھی تو ساتھ ہی قابض فوج کے ظلم وستم نے بھی نیارخ اختیارکیا۔
صرف پیلٹ گنز ہی نہیں، پیپٹ یعنی مرچی گنز اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شروع کردیا گیا۔ خیال تھا کہ اس طرح لوگ ڈرجائیں گئے اور وہ گھروں سے باہر نہیں نکلیں گئے لیکن مقامِ آفرین ہے کہ جو بچہ اور جو شخص اپنی جان ہتھیلی پر لیے ایک بار گھر سے نکل آیا، اُسے پھر اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کہ کب اس کا لہو وادی کی خاک کو رنگین بناڈالتاہے۔اس نئی جُوت، اس نئی لگن اور اس نئی دھن کا خالق برہان تھا جو 8جولائی 2016ء کو محض 22سال کی عمر میں بھارتی فوج کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ساتھی کے ساتھ شہید ہوگیااور اُسے پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر سپردِ خاک کیا گیا۔ اُس کی مسیں بھی پوری طرح نہیں بھیگی تھیں کہ جذبہ جہاد سے سرشار وہ میدان میں نکل پڑا اور پھر جلد ہی اپنے گروپ کا کمانڈر بن گیا۔ اس کی شہادت کا دن 8جولائی 2016ہے۔ شدید ترین کرفیو کے باوجود برہان کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ نماز جنازہ کئی مرتبہ ادا کی گئی۔ جہاں سے لوگ جنازے میں شریک نہیں ہوسکے انہوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔
برہان کا نام آج بھی کشمیری نوجوانوں کے ذہنوں میں نقش ہے۔ نقش ہی نہیں بلکہ وہ اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آزادی کے حصول کے لیے سرگرداں ہے۔ اس تحریک سے بوکھلا کر بھارت نے پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور اب وہ تحریک حریت کے سرخیلوں کو ماورائے عدالت سزائیں دے کر انھیں اپنی راہ سے ہٹانے کے مذموم مقاصد پر عمل پیرا ہے۔ یاسین ملک، شبیر شاہ، آسیہ اندربی اور دیگر حریت رہنماؤں کی قید وبند تحریک حریت کے متوالوں کے لیے پیغام ہے کہ وہ تائب ہوجائیں لیکن آفریں ہے کہ اس کے باوجود کشمیری مردو زن، جوان و پیر، شیرخوار و کم سن ہر کوئی جان کی قربانی دیتے ہوئے اس تحریک کی آبیاری میں مصروف عمل ہے۔ سچ ہے کہ جذبوں کو کبھی شکست نہیں دی جاسکتی۔ کاش بھارت یہ سمجھ لے!
واپس کریں