انعام الحسن کاشمیری
سید علی شاہ گیلانی کے انتقال کے ٹھیک 13ماہ اور دس دن بعد ہی ان کے فرزند نسبتی الطاف احمد شاہ دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 66برس تھی۔ وہ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید تھے۔ تکلیف میں شدت کے باوجود انھیں طبی سہولیات فراہم نہ کی جارہی تھیں جس کی شکایت انھوں نے عدالت پیشی کے موقع پر بھی کی۔ اس کے بعد ہائیکورٹ کے حکم پر 5اکتوبر کو انھیں تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ سوموار 10اکتوبر کی رات کوساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ انتقال کرگئے۔انھیں ابائی قبرستان میں والد کی قبر کے پہلو میں سپردخاک کیا گیا۔
الطاف احمد شاہ کا شمار آزادی پسند رہنماؤں اور ریاستی سیاست دانوں کی صف اول میں ہوتا تھا۔وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئررہنما تھے۔ اپنے سسر سید علی شاہ گیلانی کی روایت پر عمل پیرا انھوں نے اپنی زندگی کشمیر کاز کے لیے مکمل طور پر وقف کیے رکھی۔الطاف احمد شاہ عرف الطاف فنتوش 1990ء سے حریت پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف کار ہوئے۔ ان کا شمار 2004ء میں سید علی شاہ گیلانی کی تحریک حریت میں شامل ہونے والے ابتدائی چند اراکین میں بھی کیا جاتاہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے تمام فریقین کے ساتھ بامقصد بات چیت کرنے کے بھرپور حامی تھے۔ اس طرح کی سرگرمیوں کے دوران وہ متعدد بارمیڈیا کی سرخیوں میں بھی آئے۔ انھیں 25جولائی2017ء کو ابائی علاقے سوپور، سرینگر سے دیگر چھ افراد کے ہمراہ اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک احتجاجی جلوس میں شریک تھے۔ان کے ہمراہ میرواعظ مولوی عمر فاروق کے قریبی ساتھ شاہدالاسلام اور حریت کانفرنس گیلانی گروپ کے ترجمان ایاز اکبر کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان پرالزام تھا کہ وہ حریت پسندوں کی مالی مدد کرتے ہیں چنانچہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی این آئی اے نے انھیں حراستی مرکز میں منتقل کردیا جہاں سے 14اگست کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے الطاف شاہ اوردیگر افراد کو 14روزہ ریمانڈ پر جیل بھجوادیا جس کے بعد یہ ریمانڈ پھر کبھی ختم نہیں ہوا۔
الطاف احمد شاہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں منتقلی سے قبل 24ستمبر سے رام منوہرلوہیا ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہ اگرچہ گردوں کے کینسر میں مبتلا تھے، ان کے پھیپھڑے بھی بری طرح متاثر ہوچکے تھے اور ذیابیطس کا لاحق مرض خطرناک حدوں کو چھورہاتھالیکن اس کے باوجود یہاں اس مرض کا علاج کرنے کے بجائے انھیں وینٹی لیٹر پر رکھتے ہوئے عام نوعیت کی ادویات ہی دی جارہی تھیں۔ عدالت نے اگرچہ ان کی اپنی درخواست پر انھیں فوری طور پر دوسرے ہسپتال میں منتقل کرنے کا حکم دے رکھا تھا لیکن اس کے باوجود منتقلی میں رکاوٹیں حائل کی گئیں۔ 4اکتوبر کو بیٹی روا شاہ نے اپنے ٹوئیٹ میں اس المناک حسرت کا اظہار کیا کہ ان کے والد کی حالت انتہائی خراب ہے اور وہ وینٹی لیٹر پر ہیں لیکن عدالتی حکم کے 27گھنٹے گزرجانے کے بعد بھی انھیں بہترعلاج معالجہ کے لیے مطلوبہ ہسپتال میں منتقل نہیں کیاجارہا۔ رواشاہ جو خود سینئرصحافی ہیں، نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ ان کے والد کو بہترین علاج کے لیے ایمز میں منتقل کرنے کے اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ اس دوران رواشاہ نے اپنے بیمار والد سے ملنے کی بھی درخواست کی لیکن حکام کی طرف سے ملاقات کی اجازت نہ دی گئی۔ یکم اکتوبر کو رواشاہ نے بھارت کے وزیرداخلہ امیت شاہ کو ایک خط ارسال کیا تھاجس میں والد الطاف احمد شاہ کی انتہائی خراب حالت کے پیش نظر انھیں ڈاکٹر رام منوہرلوہیا ہسپتال سے کسی دوسرے موزوں ہسپتال میں منتقل ہونے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس خط میں رواشاہ نے درخواست کی تھی کہ انتہائی مخدوش حالت کے باعث الطاف احمد شاہ کی جیل میں حراست ختم کرتے ہوئے انھیں گھر پر نظربندی کے احکامات جاری کیے جائیں تاکہ زندگی کے آخری ایام کے دوران ان کی بیمار اہلیہ اور بچے ان کے ساتھ رہ سکیں۔ رواشاہ کا کہنا تھا کہ میں اپنے والد کو قید کے دوران مرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی، میں چاہتی ہوں کہ وہ آزاد مرد کی طرح موت کو گلے لگائیں۔ اس سے پیشتر بھی انھیں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں لیکن وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔
الطاف احمد شاہ گزشتہ تین برسوں کے دوران چوتھے حریت رہنما تھے جو دوران حراست اپنے عظیم مشن کی راہ میں قربان ہوگئے۔ حریت رہنما 65سالہ عبدالغنی بھٹ اترپردیش کی جیل میں دوران حراست دسمبر 2019ء میں انتقال کرگئے تھے۔ انھیں پانچ ماہ قبل ہی کپواڑہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ مختلف موذی امراض میں مبتلا تھے۔ اسی طرح تحریک حریت کے چیئرمین 77سالہ اشرف صحرائی 5مئی 2021ء کو جموں کے ایک ہسپتال میں دوران حراست انتقال کرگئے۔ انھیں جولائی 2020ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ادھمپور جیل میں قید وبندکے ایام گزار رہے تھے۔ اس دوران انھیں سانس لینے میں سخت تکلیف کاسامنا کرنا پڑا جس کے بعد انھیں 4مئی کو ہسپتال لایا گیا جہاں وہ اگلے ہی روز چل بسے۔ الطاف احمد کے سسر سید علی شاہ گیلانی مسلسل 10برسوں کی نظربندی کے دوران ہی 92برس کی عمر میں یکم ستمبر 2021ء کوانتقال کرگئے تھے۔
الطاف احمد شاہ کے انتقال پر پاکستانی وزارت خارجہ کے دفتر میں بھارتی سفارتخانے کے ناظم الامور کو بلاکر سخت احتجاج کیا گیا اور بھارت سے کہا گیا کہ وہ حریت رہنما کی دوران حراست شہادت کی تحقیقات کرے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے الطاف احمد شاہ کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ یہ مودی حکومت ہی ہے جس نے سرطان کے موذی مرض میں مبتلا قیدی کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے سے انکار کیا۔
واپس کریں