دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر پر بھارت کا فوجی قبضہ اور تاریخی حقائق
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
بھارت نے باقاعدہ طور پر اپنی فوج کو 26اور27اکتوبر1947ء کی درمیانی رات ایک طویل فضائی آپریشن کے ذریعے سرینگر ائیرپورٹ پر اتارنا شروع کردیاتھا۔ چنانچہ 27اکتوبر کو ہرسال بھارت کے اس اقدام کے خلاف کشمیری عوام یوم سیاہ مناتے ہیں۔ بھارت کا فوج بھیجنے کا یہ اقدام سراسرغیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرآئینی تھا۔ منصوبہ قانون تقسیم ہند میں پاکستان اور بھارت کے قیام اور دیگر 564 ریاستوں، جو براہ راست برطانیہ کی عملداری میں تھیں، کے مستقبل کے بارے میں ضروری امور طے کردیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیا گیا تھا کہ جو کسی ریاست کے لیے مشکلات کاباعث بنتا۔ ریاستوں کے لیے سیدھا سادھا اصول یہ طے کیا گیا تھا کہ مذہبی اور جغرافیائی بنیادوں پر آبادی کے تناسب کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں، حکمران خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ چنانچہ اس واضح،شفاف اور بالکل نمایاں اصول کی روشنی میں ریاست جموں وکشمیر جہاں 70فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، کا الحاق اپنی مسلم اکثریتی آبادی اور جغرافیائی بنیادوں پر پاکستان کے ساتھ ہونا نوشتہ دیوار تھا۔ مہاراجہ ہندو تھا اور کانگریس کے نیتاؤں اور ہندوبنیاؤں کی اول و آخر سوچ یہی تھی کہ اس ریاست کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔اس مقصد کے لیے پہلے مہاراجہ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کرے۔ منصوبہ قانون تقسیم ہند کے 3جون کو اعلان کے بعد سے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن، کانگریس کے صدر، پنڈت جواہر لال نہرو، گاندھی اور دیگر ہندو لیڈروں نے ایک تسلسل کے ساتھ ریاست جموں وکشمیر کا دورہ شروع کردیا۔ اس دوران مہاراجہ پر مسلسل دباؤ ڈالاجاتا رہا کہ وہ ریاست کا الحاق بہرصورت بھارت کے ساتھ کریں۔ ان کوششوں کو ثمربار کرنے کے لیے مہاراجہ کے دربار میں ہندو نمائندوں کی تعیناتی بھی عمل میں لائی جانے لگی۔ چنانچہ پہلے پنجاب کے ایک ہندو آر ایل بٹرا کو مہاراجہ کا نائب وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ بعدازاں کرنل کشمیرسنگھ کھٹوعہ کو مہاراجہ کا فوجی مشیر تعینات کیاگیا۔ اسی طرح مہاراجہ کے وزیراعظم گوپال سوامی آئینگر کو پنڈت جواہرلال نہرو کی کابینہ میں شامل کرلیاگیا حالانکہ وہ پارلیمنٹ کے رکن بھی نہ تھے۔ علاوہ ازیں خط کتابت کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہا جس کے ذریعے مہاراجہ پر دباؤ ڈالاجاتا تھا۔
مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کو خودمختار رکھنے کا حامی تھا جس کی بابت ہندولیڈروں کو علم تھا اور اسی لیے وہ ازخود کشمیر میں بار بار وارد ہورہے تھے تاکہ مہاراجہ خودمختاری یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھاسکے۔ وائسرائے ہندلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تو مہاراجہ کو بھار ت کے ساتھ الحاق کرنے کے بدلے میں ہرقسم کے تعاون، حفاظت اور دیگر مراعات وسہولیات کا وعدہ بھی کرلیا تھا۔ گاندھی جو انسانیت نوازی میں بڑے مہربان گردانے جاتے ہیں، انھوں نے بھی قانون تقسیم ہند کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست کا دورہ کیا اور مہاراجہ پر دباؤ ڈالا۔ اس دوران انھوں نے یہ بھی فراموش کردیا کہ وہ کتنے بڑے انسانی المیے کی بنیاد رکھنے جارہے ہیں۔ ان کی دانش مندی اور فہم وفرست میں یقینا یہ بات ضرور ہوئی ہوگی لیکن جب انھیں خیال آیا ہوگا کہ اس عظیم انسانی المیے کا شکار کشمیر کے غریب، مجبور اور بے کس مسلمان ہوں گے تو انھوں نے مسکراکر اپنے کردار کے دوغلے پن کا ایک چولا اور اوڑھ لیا ہوگا۔
مہاراجہ کو بخوبی علم تھا کہ وہ ریاست کی غالب اکثریت مسلمانوں کی خواہش و مرضی کے منافی کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں۔ اسے پونچھ کے ساٹھ ستر ہزار برطانوی فوج کے سابق مسلمان سپاہیوں، اپنی فوج میں شامل مسلمانوں اور دیگر علاقوں میں مسلمان اسلحہ برداروں سے سخت خوف لاحق تھا۔ وہ پونچھ کے دورے کے دوران ان سابق سپاہیوں کے نظم وضبط اور ان کی اجتماعی قوت کا مظاہرہ بھی کرچکا تھا۔ ایسے مزاحمتی عناصر سے چھٹکارا پانے کے لیے اس نے جولائی میں مشرقی پنجاب کی سکھ ریاستوں کے غنڈوں، آرایس ایس اور اکالی دل کے کارکنوں اور دیگر بلوائیوں کو ریاست میں بلاکر انھیں کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کررکھ دیں۔ انھیں مزاحمت سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلمان رعایا سے ہرقسم کے ہتھیار یہاں تک کہ چھری، کانٹا، کلہاڑی تک واپس لیے جانے کے احکامات جاری کردیے گئے اور عدم تکمیل کی صورت میں سخت ترین سزا کاموجب ٹھہرائے جانے کی کھلی دھمکیاں دی گئیں۔ ایسے گھناؤنے، غیرانسانی اور غیراخلاقی اقدامات کے باوجود مسلمانانِ کشمیر نے اپنی مد آپ کے تحت مہاراجہ کے خلاف تحریک شروع کردی۔ مجاہدین منزلوں پر منزلیں مارتے چند ہی دنوں میں سرینگر سے چند سو گز دور تک پہنچ گئے۔ بدقسمتی سے یہاں سڑک کے اطراف میں اس قدر پانی چھوڑ دیا گیا تھا کہ جس نے دلدل کی صورت اختیار کرلی۔ مجاہدین کے لیے اسے پار کرنا ممکن نہ تھا۔ اس اثناء میں بھارتی فوج بھی سرینگر ائیرپورٹ پر اتر کر بڑی تیزی کے ساتھ مجاہدین کے مقابلے میں آگئی جو کہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھی۔
27اکتوبر کو کشمیر پر فوج کشی اور قبضے کے لیے بھارت نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مسلسل جھوٹ کا سہارالیا۔ پہلے برطانوی وزیراعظم اٹیلی کو ایک مکتوب ارسال کیاگیا جس میں مہاراجہ کی جانب سے فوری فوجی مدد کی درخواست کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ریاست کے عوام بیرونی حملہ آوروں کے باعث موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو لاکھوں لو گ جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔ بھارت اس فوجی قبضے کو جواز بنانے کے لیے ایک اور بھونڈی دلیل الحاق کی بھی گھڑتا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ مہاراجہ نے 26اکتوبر کو بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کردیے تھے۔ ایسی کوئی دستاویز اگر بھار ت کے پاس ہوتیں تووہ یقینا انھیں دنیا کے سامنے پیش کرتا۔ مہاراجہ نے بھارت سے صرف فوجی امداد کی درخواست کی تھی جسے بھارت نے الحاق سے مشروط کردیا۔ مہاراجہ کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا اور نہ وہ اپنی راجدھانی سے فرار ہونے کے دوران ایسی کسی دستاویز پر دستخط کرسکتا تھا۔ فی الوقت وہ بھارتی فوج کی مدد سے اپنی حکومت کو محفوظ رکھنے کی فکر میں غلطاں تھا۔ اس کا بھارت جانے کا کوئی ارادہ بھی نہ تھا لیکن بھارت نے چالوں پر چالیں چلتے ہوئے مہاراجہ کو واپس اس کی راجدھانی میں نہ جانے دیا۔ الٹا بھارت نواز شیخ عبداللہ کو منتظم اعلیٰ مقرر کردیا گیا جس نے جو کردار اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ادا کیا، تاریخ میں ایک نہایت اندوہناک اور افسوس ناک باب کی صورت میں موجود ہے۔ بعد میں بھارتی آقاؤں نے اپنے غلام کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ عہد شکنی، وعدہ خلافی اور احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے۔
وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور سرحدوں کے تعین کے لیے برطانوی نمائندے لارڈ کلف نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھے جانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ماؤنٹ بیٹن نے گاندھی، نہرو اور پٹیل سے مل کر ریاست جموں وکشمیر ہتھیانے کا جو منصوبہ بنارکھا تھا اس کی ایک جھلک ریڈکلف ایوارڈ کے اعلان سے قبل پٹھانکوٹ میں ملتی ہے جہاں دریائے راوی پر کشتیوں کے پل تعمیر کیے گئے، اس کے ساتھ ساتھ کھٹوعہ روڈ کو بھی ازسرنوتعمیر ومرمت کیا گیا تاکہ بھارتی فوج کو زمینی راستے سے ریاست میں داخل ہونے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ ان اقدامات کے بموجب ہی ریڈکلف نے بدنیتی کامظاہرہ کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کو بھارت کی جھولی میں ڈال کر اسے ریاست جموں وکشمیر میں براہ راست رسائی اور مداخلت کرنے کا ذریعہ اور موقع فراہم کردیا۔لارڈ کلف نے اپنی اس حماقت اور بدعہدی کا اقرار کچھ ہی عرصے بعدکرتے ہوئے معافی مانگ لی تھی لیکن اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
ریاست جموں وکشمیر کو ہتھیانے کے لیے قانون تقسیم ہند، ریڈکلف ایوارڈ اور دیگر قوانین و پالیسیوں میں جو ردوبدل کیاگیا، اور جس طرح کی عہد شکنیاں و وعدہ خلافیاں عمل میں لائی گئیں، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اپنے ہی قول و فعل میں تضاد تقسیم برصغیر کے موقع پر کھلم کھلا دیکھنے میں آیا اور ایسی قوم کے نمائندوں نے ایک ایسے عظیم انسانی المیے کو جنم دیا جو خود کو بڑی مہذب، قول کا پکا اور کردار کا سچا بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی لیکن اس نے کرہ ارض کے سینے پر ایک ایسے قضیے کو کشمیر کی صورت میں باقی چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں اب تک چھ لاکھ سے زائد جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں۔٭٭
واپس کریں