دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
77واں یو م قراردادالحاق پاکستان
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
اہلِ کشمیرکویہ اعزازحاصل ہے کہ انہوں نے قیامِ پاکستان سے تقریباً25دن قبل 19جولائی 1947ء کو بھاری اکثریت سے قراردادِ الحاقِ پاکستان منظور کرکے اپنی سمت کا تعین کردیا۔ اسی سمت چلتے ہوئے وہ پچھلے 77برسوں سے لگاتارقربانیاں پیش کرتے چلے آرہے ہیں اور اب بھی وہ اس امر کا عہد کیے ہوئے ہیں کہ جب تک بھارتی جبرواستبدادکاخاتمہ نہیں ہوجاتااور پوراکشمیر آزادہوکر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا، تب تک یہ جدوجہد اور یہ تحریک جاری رہے گی۔
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا ایک سالانہ اجلاس 17,18,19اپریل1942ء کو منعقد ہوا جس میں چودھری غلام عباس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم کو یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ کشمیر کے 35لاکھ مسلمان ریاست کو صرف اور صرف پاکستان کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن قبول نہیں کرینگے۔
قائد کشمیر چودھری غلام عباس کے اس واشگاف اعلان سے یہ بالکل واضح اور نمایاں ہوتا ہے کہ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے ساتھ ہی35لاکھ مسلمانانِ کشمیر نے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرلیا چنانچہ جب 3جون 1947ء کوقانونِ تقسیم ہند کا اعلان کیا گیا اور اس سلسلے میں ضروری اصول وضوابط وضع کیے گئے تو مسلمانانِ کشمیر، جو ریاست جموں وکشمیر کی نمایاں ترین اکثریت تھے، کوسوفیصد یقین تھا کہ قانونِ تقسیم ہند کی رو سے ان کی ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کردیا جائے گا۔ تاہم آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے مہاراجہ کے ہتھکنڈوں سے آگاہی کی بناء پر اسے یہ باور کروانے اور پوری ریاست کے مسلمانوں کے واحد اور جائز مطالبے سے بھرپور طریقے سے آگاہ کرنے کیلئے 19جولائی 1947ء کو قرارداد الحاقِ پاکستان منظور کی۔ اس مقصد کیلئے 19جولائی 1947ء کو آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس آبی گزرگاہ سرینگر میں واقع سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر منعقد ہواجس میں ریاست کے تقریباً تمام علاقو ں سے تعلق رکھنے والے نمائندگان نے شرکت کی اور بھاری اکثریت کے ساتھ قراردادِ الحاق پاکستان منظور کرتے ہوئے اپنے مستقبل کا واضح تعین کردیا۔ اس قراردادِ الحاق پاکستان کے مسودے کے مختلف نکات میں سے ایک نکتہ یہ تھا کہ مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن بڑے غورو خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی لسانی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے ریاست کا پاکستان سے الحاق نہایت ضروری ہے کیونکہ ریاست کی آبادی کا80فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے تمام بڑے دریا جن کی گزرگاہ پنجاب ہے، جن کے منبع وادیئ کشمیر میں ہیں اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے عوام کے ساتھ مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی رشتوں میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے۔ قراردادِ الحاقِ پاکستان کا متن ذیل میں دیا جاتاہے:۔
1۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن اس قرار داد کے ذریعے قیام پاکستان پر اپنے اطمینانِ قلبی کااظہار کرتے ہوئے قائداعظم کو اپنی مبارکباد پیش کرتا ہے۔
2۔ برصغیر کی ریاستوں کے عوام یہ یہ امید تھی کہ وہ برطانوی ہندوستان کے دوسرے باشندوں کے دوش بدوش قومی آزادی کے مقاصد کو حاصل کریں گے اور تقسیم ہندوستان کے ساتھ جہاں برطانوی ہندوستان کے تمام باشندے آزادی سے ہمکنار ہوئے وہاں 3جون 1947کے اعلان نے برصغیر کی نیم مختار ریاستوں کی حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں اور جب تک یہ مطلق العنان حکمران وقت کے جدید تقاضوں کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں گے، ہندوستانی ریاستوں کے عوام کا مستقبل بھی بالکل تاریک رہے گا۔ ان حالات میں ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے سامنے صرف تین راستے ہیں (1)ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق(2)ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق(3)ایک خودمختار ریاست کا قیام۔
3۔ مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن بڑے غورو خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی لسانی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے ریاست کا پاکستان سے الحاق نہایت ضروری ہے کیونکہ ریاست کی آبادی کا80فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے تمام بڑے دریا جن کی گزرگاہ پنجاب ہے، جن کے منبع وادیئ کشمیر میں ہیں اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے عوام کے ساتھ مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی رشتوں میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے۔
4۔ یہ کنونشن مہاراجہ سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کو داخلی طور پر مکمل داخلی خودمختاری دی جائے اور مہاراجہ ریاست کے آئینی سربراہ کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے ریاست میں ایک نمائندہ قانون ساز اسمبلی تشکیل کرے اور دفاع، مواصلات اور امورِ خارجہ کے محکمے پاکستان دستورساز اسمبلی کے سپرد کیے جائیں۔
5۔ کنونشن یہ قراردیتا ہے کہ اگر حکومت کشمیر نے ہمارے یہ مطالبے تسلیم نہ کیے اور مسلم کانفرنس کے اس مشورے پر کسی داخلی یا خارجہ دباؤ کے تحت عمل نہ کیا گیا اور ریاست کا الحاق ہندوستان کی دستورساز اسمبلی کے ساتھ کردیا گیا تو کشمیری عوام اس فیصلے کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی تحریک ِ آزادی پورے جوش و خروش سے جاری رکھیں گے۔
مسلم کانفرنس کے درج بالا اجلاس منعقدہ19جولائی1947ء میں چودھری غلام عباس جیل میں ہونے کے باعث شرکت نہیں کرسکے تھے تاہم وہ اول دن سے ہی الحاق پاکستان کے بھرپور داعی تھے۔ اس کا ایک اندازہ ان کے ایک بیان سے ہوتا ہے جو انھوں نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقدہ 17,18,19اپریل1942ء کے اجلاس میں کیا۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم کو یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ کشمیر کے 35لاکھ مسلمان ریاست کو صرف اور صرف پاکستان کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن قبول نہیں کرینگے۔
واپس کریں