دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سانحہ کنن پوشپورہ۔۔متاثرہ خواتین32سال بعد بھی انصاف کی منتظر
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
23فروری 1991ء کی رات بھارتی فوج کی راجپوتانہ رائفلز کے اہلکار وں نے تلاشی کے بہانے گاؤں کے مردوں اور جوانوں کو حکم دیا کہ وہ ایک کھلے میدان میں جمع ہوجائیں جب کہ خواتین کو ہدایت کی گئی کہ وہ گھروں ہی میں رہیں۔ اہلکار کہ جنھوں نے دو دیہاتوں میں بیک وقت تلاشی کی مہم جاری کر رکھی تھی، ہر گھر میں داخل ہوئے۔ کنن اور پوشپورہ نامی ان دیہاتوں پر یہ رات قیامت بن کر اتری۔ اس رات کی تفصیل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ”ہیومن رائٹس واچ“ نے اپنی رپورٹ The Commonwealth and Human Rights، ABDICATION OF RESPONSIBILITY کے صفحہ نمبر 14اور 15پر فراہم کی ہے۔ یہ رپورٹ اکتوبر1991ء میں شائع ہوئی جس میں دنیا کے مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس چشم کشا رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ ”23فروری کی رات فوجی اہلکاروں نے درجنوں خواتین کی آبرو رویزی کی۔دیہاتیوں نے اس واقعہ کی اطلاع کمانڈنگ آفیسر کو دی جس نے مجرم سپاہیوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے بجائے واقعہ کا سرے ہی سے انکار کردیا۔ بعدازاں 5مارچ کو مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش کیا گیا جس نے 7مارچ کو گاؤں کا دورہ کیا اور 23متاثرہ خواتین کے بیانات قلم بند کیے۔ مجسٹریٹ نے اگرچہ صرف 23خواتین سے تفتیش کی جب کہ متاثرین کی تعداد 100تک ہوسکتی ہے۔“

بھارتی فوجیوں نے عمر، جسامت، صحت، بیماری یا کسی اور عنصر کو خاطر میں لائے بغیر خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ حاملہ خواتین کو بھی نہ بخشا گیا جس کا ذکر مجسٹریٹ نے اپنی رپورٹ میں بھی کیا ہے۔ مجسٹریٹ کی رپورٹ کے بعد 17مارچ کو چیف جسٹس مفتی بہاؤالدین فاروقی کی قیادت میں ایک وفد نے متاثرہ گاؤں کا دورہ کیا اور 57خواتین کے بیانات قلم بند کیے جن سے زیادتی کی گئی۔ چیف جسٹس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس واقعہ کی تفتیش کے لیے اگرچہ پولیس افسر کا تقرر کیا گیا لیکن اس نے اس سلسلہ میں سخت نالائقی دکھائی۔

چند دنوں بعد ڈویژنل کمشنر نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کے بعد اپنی خفیہ رپورٹ تیار کی جس کاخلاصہ یہ ہے کہ”فوجی اہلکاروں پر لگائے گئے الزام پر یقین نہیں کیاجاسکتا۔ یہ الزام دہشت گردوں کے دباؤ پر چند ایک دیہاتیوں کی جانب سے لگایاگیا۔“ اس رپورٹ کی بنیاد پر بعدازاں اس واقعہ میں ملوث اہلکاروں کو ”نو اوبجیکشن سرٹیفکیٹ“ بھی دے دیا گیا۔
کنن پوش پورہ ”استحصالی گاؤں“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس واقعے کے بعد وہاں کسی لڑکی کی شادی نہیں ہو سکی کیونکہ کوئی انہیں قبول کرنے پر تیار نہیں تھا۔ کنن پوشپورہ میں ایک مڈل سکول تھا جہاں سے فراغت کے بعد طالب علم دیگر علاقوں کے سکولوں کا دورہ کرتے۔ اس واقعہ کے بہت عرصے بعد تک یہاں کے طالب علم شرمندگی کے مارے ہائی سکولوں میں داخل تک نہ ہوئے۔ صرف کنن پوشپورہ ہی نہیں، بعد کے برسوں کے دوران بھی فوج نے اس ہتھیار کو متعدد بار استعمال کیا۔

ستمبر 2006ء میں ہیومن رائٹس واچ نے جموں و کشمیر میں خواتین کے ساتھ بھارتی فوج اور دیگر پیراملٹری فورسز کی زیادتیوں کے متعلق ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ گزشتہ سترہ برس کے دوران بھارتی فوج کے کشمیری خواتین کے ساتھ زیادتی کے لاتعداد واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ رپورٹ جس میں 1990ء سے 2006ء تک کے ان مجرمانہ حملوں کا جائزہ لیا گیا تھا اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا جو 1994ء میں شائع ہوئی اور جس میں بتایا گیا تھا کہ صرف 1992ء کے ایک سال کے دوران 882خواتین کے ساتھ بھارتی افواج کی اجتماعی زیادتی کے واقعات منظر عام پر آئے۔ یہ صرف وہ اعداد وشمار ہیں جو میڈیا کے ذریعے سامنے آئے وگرنہ اس سے کہیں زیادہ واقعات ایسے ہیں جن کا علم نہ ہو سکا۔
بمبئی سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی رتو دیوان نے اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ مئی 1994ء میں جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔ اپنے ایک مضمون میں اس نے لکھا کہ ”عصمت دری اور زیادتی کے انفرادی یا اجتماعی واقعات اگر منظر عام پر آئیں تو ان کی تعداد ہوشربا حد تک بڑھ جاتی ہے لیکن معاشرتی مسائل کی وجہ سے بہت بڑی تعداد ابھی تک نا معلوم ہے۔

نومبر 2004ء میں لنگیت ہندواڑہ کے علاقے میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ماں بیٹی سے اجتماعی زیادتی کے واقعہ نے ذرائع ابلاغ میں خاصی جگہ لی۔ اس واقعے کے خلاف پورے کشمیر میں سخت ردِ عمل پید اہوا اور لوگوں نے بھارتی فوج کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ اسی دوران متن اننت ناگ کے علاقے میں راشٹریہ رائفلز کے ہاتھوں ایک خاتون کی اجتماعی عصمت دری کا واقعہ رونماہوگیا۔
مقبوضہ کشمیر میں مقبول خاتون رہنماء آسیہ اندرابی کا کہناتھا کہ ”بھارتی فوج عزت پر حملوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ وہ بندوق کے زور سے ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں کو متاثرہ علاقوں تک رسائی اوران واقعات کی اشاعت کو روکنے پر مجبور کرتے ہیں۔“

کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں دوران تلاشی زیادتی کے واقعات کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن نام نہاد جمہوریت کا علمبردار بھارت ان واقعات کو منظر عام پر نہیں آنے دیتا۔ گویا اس نے اپنی فوج کی تسکین کے لیے اسے پوری اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے جس حد تک چاہے جائے اور جو جرم کرنا چاہے اس کے لیے اسے کھلی آزادی حاصل ہے۔
کنن پوش پورہ سانحہ کی متاثر خواتین، جن کی تعداد سو کے قریب ہے گزشتہ 32 برس سے انصاف کی متمنی ہیں۔اس واقعہ پرہومن رائٹس واچ سمیت دیگر تنظیموں اور اداروں نے اپنی اپنی رپورٹیں مرتب کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی۔پریس کونسل آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں اگرچہ فوجی اہلکاروں کو بری الذمہ قرار دیا تھاتاہم اس نے بھی مقامی ہسپتال کے ڈاکٹرکا حوالہ دیا جس نے بتایا کہ واقعہ کے چوتھے دن ایک خاتون کے ہاں شدید زخمی بچے کی ولادت ہوئی۔ اسی طرح دوتین نوجوان لڑکیوں کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر خراشیں تھیں۔

متاثرہ خواتین کے حق میں دنیا بھر میں 23فروری کو یوم کنن پوش پورہ مناتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ اس سانحہ کی طرف مبذول کرواتے ہوئے مطالبہ کیا جاتاہے کہ صرف اس سانحہ ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کی نہایت خوفناک شکل اجتماعی عصمت دری کے دیگر واقعات کی بھی تحقیقات عمل میں لاتے ہوئے ذمہ داران کو اس کی کڑی سزا دی جائے۔ ٭٭٭
واپس کریں