دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
5اگست یوم استحصال۔بھارت ناکامیوں پر پردہ ڈالنے لگا
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
بھارتی سپریم کورٹ میں 5اگست2019کے اقدام یعنی مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت شروع ہوگئی ہے۔ یہ سماعت مسلسل جاری رہے گی۔ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ نے دائرتمام درخواستوں کو یکجا کر کے ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ یہی بینچ درخواستوں کی سماعت کرے گا اور اس مقصد کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی ضرورت نہیں۔ یہ 2درجن کے قریب درخواستیں مقبوضہ جموں وکشمیر کے تین منتخب ممبران پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی، فاروق عبداللہ اور محمد اکبر لون سمیت سابق فوجی افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے دائر کی گئی ہیں جن میں یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ کیاکشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں؟اور خاص طور پر یہ کہ کیا بھارتی حکومت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسمبلی کی غیر موجودگی میں آئین کی ان دفعات کو ختم کرے جن کا تعلق براہ راست ریاست کے ساتھ ہے؟
دفعات 370اور 35اے کو آئین میں شامل کرتے وقت ان کے ختم کرنے کے متعلق واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ ریاستی اسمبلی کی حمایت ہی سے ان دفعات کو ختم کیاجاسکے گا۔ عملی طور پر چونکہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا اس لیے بھارتی جنتا پارٹی کی نریندراسنگھ مودی کی سربراہی میں حکومت نے ایک سال قبل ہی 2018ء میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی حکومت کی حمایت واپس لینے کے بعد اس کا خاتمہ کرتے ہوئے ریاست میں صدارتی راج نافذ کردیا تھا۔ جولائی 2019ء میں مرکزی سرکار نے غیر ریاستی باشندوں، سیاحوں کو ریاست میں سے فوری طور پر نکلنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کرفیو نافذ کردیا۔ ایسا کرتے ہوئے سب سے پہلے ذرائع مواصلات پرپابندی عائد کردی گئی۔اس اقدام نے کشمیری سیاستدانوں کوخطرے سے آگاہ کردیا تھاکہ ریاست کے ساتھ کوئی بڑا کھلواڑ ہونے جارہاہے۔اگست کے شروع ہی میں ممتاز ریاستی سیاست دانوں کے ایک وفد نے گورنر سیتہ پال آنند سے ملاقات کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ گورنر نے یقین دھانی کروائی کہ ایسا کوئی اقدام زیرغور نہیں۔ وفدنے واضح کردیا کہ اگر ایسا کوئی اقدام کیا گیا تو اس کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔ گورنر کی اس یقین دھانی کے باوجود دوتین دن کے بعد 5اگست کاسانحہ رونما ہوا۔ بھارت نواز اور مخالف دونوں سیاست دانوں کوگرفتارکرلیاگیا۔
درخواست گزاروں کا یہ استدلال بڑا مضبوط ہے کہ بھارتی حکومت ریاستی اسمبلی کی حمایت کے بغیر کشمیر سے متعلق آئین کی دفعات کو ختم کرنے کا ہرگز اختیار نہیں رکھتی۔ گویا یہ اقدام سرے سے غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر عدالت میں بحث شروع ہوگی۔ ایک سال بعد ان درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کو منتقل کیا گیا۔ اسی آئینی بینچ نے گذشتہ سماعت کے دوران مودی حکومت کے اُس بیان حلفی کو بحث سے خارج قرار دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دفعہ 370 ہٹنے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا اور کشمیر میں ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا۔ عدالت کاکہناتھا کہ وہ اس معاملہ کے آئینی اور قانونی جواز پر بحث کو سنے گی نہ کہ اس کے سیاسی نتائج پر لیکن صاف ظاہر ہے کہ مودی حکومت عدالت پر ضرور اثرانداز ہوگی۔
5اگست اقدام کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کا یہ موقف اگر درست مان لیا جائے کہ اس اقدام کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں دہشت گردی ختم ہوگئی ہے، حالات پر امن ہوگئے ہیں اور معاشی واقتصادی سرگرمیاں بحال ہوگئی ہیں تو پھر شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق کیوں نہیں دیے جارہے اور یہ کہ ذرائع مواصلات پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار رائے پر بھی بری طرح قدغن لگائی گئی ہے۔ جو شخص بھی بھارت کے اس اقدام کے خلاف بات کرتاہے،ا س کے خلاف مقدمہ قائم کرکے اسے باغی قرار دینے کی روش اپنائی گئی ہے۔ پانچ اگست کے اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران ہزاروں بے گناہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ انھیں اپنے گھروں سے ہزاروں میل دوربھارتی شہروں بریلی، آگرہ، جودھپور، دلی، الہ آباد اور دوسرے شہروں کیجیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیاجارہاہے اور ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ انھوں نے اپنے دیس، اپنے وطن، اپنی مٹی کی بات کی ہے اور یہ کہ وہ اپنا پیدائشی حق خود ارادیت مانگتے ہیں۔
ممبر پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی کاکہناہے کہ جموں کشمیر واحد خطہ ہے جہاں پانچ سال سے صرف ایک لیفٹیننٹ گورنر اور چند بیوروکریٹ براہ راست بھارتی وزیر داخلہ کی نگرانی میں انتظامی امور چلا رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ لوگ ڈرے ہوئے ہیں، خاموش ہیں، اس کو ہم معمول کی صورتحال نہیں کہہ سکتے۔ اگرایساہے تو پھر الیکشن کیوں نہیں ہو رہے۔ بی جے پی کو لگا تھا کہ یہاں بلدیاتی اور گاؤں کی سطح پر کونسلوں کے انتخابات کرکے وہ اپنے حق میں ریفرینڈم حاصل کر لیں گے، لیکن ان انتخابات میں کشمیری جماعتوں نے اکثریت لے لی، اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ کشمیری دفعہ 370 کی بحالی چاہتے ہیں۔
یہ سبز باغ دکھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بیرونی دنیا کشمیر کی طرف متوجہ ہوگی۔ یہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جاسکے گی اور اگلے پانچ چھ ماہ میں پچاس ہزار افراد کو سرکاری نوکریاں فراہم کی جائیں گی۔ عالمی سطح کی سرمایہ کاری کانفرنس تو نومبر2019ہی میں کروانے کا اعلان کردیا گیا تھا جس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ صرف اتنا ہوا کہ مئی 2023کے آخر میں سرینگر میں جی20ممالک کے اجلاس کے سیاحت کے حوالے سے چند سیشن انتہائی کڑے پہرے میں منعقد کیے گئے۔ ان سیشن میں بھی بڑے ممالک جیسے چین، ترکیہ، سعودی عرب وغیرہ نے شرکت نہیں کی۔ اس طرح بھارت کی جانب سے دنیا کو کشمیر میں امن دکھائے جانے کا ڈرامہ بری طرح فلاپ ہوگیا۔ میڈیا کے ذریعے یہ خبریں پھیلائی جارہی ہیں کہ سرحدی علاقوں میں زراعت کی ترقی کے لیے بیرونی ممالک سے مل کر منصوبے زیرغور لائے جارہے ہیں۔ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام مسلسل خوف کے سائے تلے زندگی بسر کررہے ہیں۔ آج کے دور میں آزادی اظہار رائے کے سب سے بڑے وسیلے انٹرنیٹ کو ہر تیسرے دن بند کردیاجاتاہے۔ پچھلے چار برسوں کے دوران یہ بندش 418مرتبہ ریکارڈ کی گئی۔ 5اگست 2019سے فروری تک مسلسل 6ماہ تک انٹرنیٹ بند رہا۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مختلف بینکوں کے نادہندگان کی جائیدادیں راشٹریہ سیوک سنگھ کے انتہاپسندوں کو الاٹ کیے جانے کا اعلان کیا گیاہے۔ دوسری جانب اب تک چار ملین سے زائد غیر ریاستی افراد کو باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جاری کردیے گئے ہیں۔ ایسے اقدامات کے خلاف کشمیری عوام سخت سراپا احتجاج ہیں۔وہ 5اگست کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ امسال بھی اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے وادی میں جگہ جگہ پوسٹرز آویزا کردیے گئے ہیں جن پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے، حق خود ارادیت دیے جانے، قابض فوجوں کے انخلا اور سیاسی نظربندوں کو رہا کرنے کے مطالبات درج ہیں۔ آزادکشمیر حکومت نے بھی جناب وزیراعظم کی خصوصی ہدایت کے تحت پانچ اگست کو یوم استحصال کے طور پر مناتے ہوئے مختلف نوعیت کے پروگرامات ترتیب دیے ہیں تاکہ بیرونی دنیا کو یہ باور کروایاجاسکے کہ بھارت نے کاغذ کے اوپر لکھی آئین کی خصوصی دفعات تو ختم کردی ہیں لیکن وہ عملی طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور کشمیریوں کو لالچ، ترغیب یا دھونس دھاندلی ودھمکیوں اور ظلم وجبر سے اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ کبھی کامیاب بھی نہیں ہوگا۔
واپس کریں