دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یوم شہدائے کشمیر۔قربانیوں کا تسلسل آج بھی جاری
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
(خیالِ کشمیر) یوم ِ شہدائے کشمیران مسلمانوں کی یاد میں منایاجاتاہے جنھوں نے 13جولائی 1931ء کو سنٹرل جیل سرینگر کے باہر ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں جام ِ شہادت نوش کرتے ہوئے تحریک آزادیئ کشمیر کی بنیاد رکھی۔بعض محققین کے نزدیک یہ تعداد 22اور بعض کے نزدیک23یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ ان کے بقول 22افراد نے موقع پر جام شہادت نوش کیا جبکہ دیگر شدید زخمی بعد میں جانبر نہ ہوسکے۔ شہداء کے قبرستان واقع سرینگر میں نصب تختی پر 23افراد کے نام کنندہ ہیں۔
مقبوضہ کشمیر، آزادکشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں جہاں جہاں کشمیری بستے ہیں، یوم شہداء کشمیر کو بھرپور طریقے سے مناتے ہوئے جہاں شہدائے کشمیر کو زبردست خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہیں وہیں بھارت کو بھی یہ باور کرواتے ہیں کہ جو قوم 90برس سے قربانیاں پیش کرتے ہوئے اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹی، وہ اگلی صدی میں بھی ہتھیار ڈالنے اور بھارتی ظلم وجبر سے سے دب کراپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے والی نہیں۔چنانچہ اب جبکہ بھارت نے 5اگست 2019 ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، اِسے دوحصوں میں منقسم کردیا، پھر مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے وہاں غیرریاستی افراد کو آباد کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوا، کشمیر کے وسائل پر بھارت کا ہرطرح کا حق سمجھا گیا اور عالمی سطح پر کوشش کی گئی کہ عالمی برادری اب پاکستان کو مجبور کرے کہ کشمیر پر اس کا کوئی حق نہیں اور یہ بھارت کا اندرونی تنازع ہے لیکن ان سب کے باوجود کشمیری عوام نے ایک لمحے، ایک دن کے لیے بھی بھارت کی کسی پیش کش، کسی دھمکی اور کسی زیادتی کے آگے سرِ تسلیم خم نہیں کیا بلکہ انہوں نے قربانیوں نے ایک نئی داستان رقم کرڈالی۔ پانچ اگست کے بعد وادی میں مسلسل کرفیو نافذ رہا، کشمیر سے باہر اور باہر سے کشمیر آنے جانے پر مکمل پابندی عائد رہی، پورے کشمیر میں لاک ڈاؤن کرتے ہوئے ہرطرح کی آمدورفت، رسل و رسائل، تجارت، مواصلات، انٹرنیٹ، ٹریفک، ذرائع ابلاغ وغیرہ پر مکمل پابندی لگادی گئی جس سے کشمیر میں بہت بڑے انسانی المیے کے پیداہونے کا خطرہ درپیش ہوا لیکن ان نت نئی پابندیوں کے باوجود اہلیانِ کشمیر نے جس صبر وبرداشت، قوت ایمانی اور جرأت رندانہ سے اِ ن مصائب کا مقابلہ کیا، اس سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ ان کے جسم پتھر میں ڈھل چکے ہیں جس پر کوئی وار کاری نہیں ہوتا اور ان کی سوچیں سورج کی ان تابناک کرنوں کا روپ دھار چکی ہیں جنہیں مٹھی میں قید کرنا ممکن نہیں۔ ان کا مشن وہ تیز آندھی کی صورت اختیار کرگیا ہے جو راہ میں آنے والی ہر شے کو خش وخاشاک کی طرح بہا لے جانے کی طاقت رکھتاہے۔
یومِ شہدائے کشمیر کے واقعہ کا سبب بنے والے اقدامات کے آغاز میں 29اپریل 1931ء کو ڈوگرہ راج نے اپنی مسلم دشمنی کو انتہا پر پہنچاتے ہوئے جموں میں عیدالاضحی کے خطبہ پر پابندی عائد کردی جس کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔ ابھی یہ احتجاج جاری ہی تھا کہ 4جون کوسنٹرل جیل جموں میں ایک کانسٹیبل فضل داد خان اپنے بستر پر بیٹھا اور سرہانے پر پنجسورہ رکھے تلاوت میں مصروف تھا کہ سب انسپکٹر پولیس لھبو رام مغلظات بکتا ہوا آیا اور آتے ہی پنجسورہ والے سرہانے کو اٹھاکر زمین پر پھینک دیا۔20جون کو توہینِ قرآن پاک کا ایک اور واقعہ پیش آیا جب سرینگر میں قرآن کریم کے مقدس اوراق ایک عوامی لیٹرین سے ملے۔ ان پے درپے واقعات نے مسلمانانِ کشمیر میں غم و غصے کی لہر پیدا کردی اور انہیں یقین ہوگیا کہ ڈوگرہ حکومت جان بوجھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیل رہی ہے۔ ان واقعات کے خلاف احتجاج کی لہر پوری ریاست میں پھیل گئی۔ 21جون کو سرینگر میں شیخ عبداللہ، میرواعظ ہمدانی، منشی شہاب الدین اور دیگر رہنماؤں نے ایک ہنگامی جلسہ منعقد کیا اور درج بالا واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ یہی وہ اجلاس تھا جس کے فوری بعد شیخ عبداللہ، جو کہ ایک سائنس ٹیچر تھے، کا تبادلہ سرینگر سے دوردراز علاقے مظفرآباد میں کردیا گیا تاکہ کسی صورت عوامی دباؤ کو کم کیا جاسکے لیکن ایسا ممکن نہ ہوا اور شیخ عبداللہ نے ملازمت سے ہی استعفاد ے دیا۔ 25جون کو خانقاہِ معلی میں میرواعظ مولانا یوسف شاہ کی قیادت میں ایک شاندار جلسہ ہوا جس میں 60ہزار سے زائد مسلمانانِ کشمیر نے شرکت کی۔ تمام اہم مسلم رہنما اس جلسہ میں موجود تھے۔متفقہ فیصلے کی رو سے حکومت سے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جلسہ کے اختتام پر جب مسلم رہنما چائے پینے کیلئے سٹیج سے اٹھے تو ایک اجنبی نوجوان عبدالقدیر سٹیج پر چڑھ گیا اور ڈوگرہ حکومت کی بہیمانہ پالیسیوں، توہین قرآن پاک اور ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ جانے اور اینٹ کا جواب اینٹ سے دینے کے حق میں ایسی پُرجوش تقریر کی کہ حاضرین کے جذبات بھڑک اٹھے اور انہوں نے ڈوگرہ حکومت کی مسلم کُش پالیسیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے لگانا شروع کردیے۔ اس نوجوان کو فوری بعد میں گرفتار کرلیا گیا اور مقدمہ قائم کرتے ہوئے کارروائی شروع کردی گئی۔
عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ کی سماعت سنٹرل جیل سرینگر میں ہورہی تھی۔ 13جولائی کو مقدمہ کی کارروائی سے آگاہی کیلئے سات ہزار کے لگ بھگ مسلمان جیل کے باہر موجود تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کی موجودگی نے انتظامیہ کو بری طرح بوکھلا کر رکھ دیا تھا اور انہیں معلوم نہیں پڑ رہا تھا کہ ہجوم پر کس طرح قابو پایاجائے۔ چنانچہ اس اثناء میں ہجوم میں افراتفری پیدا ہوئی تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے نہتے ہجوم پر گولی چلانے کا حکم دے دیا جس کی پاداش میں 23لوگ شہید ہوگئے۔ 23 مسلمانوں کی قربانی کے علاوہ کئی سرکردہ رہنماؤں اور نہتے شہریوں کو بھی گرفتار کرلیاگیا۔ بعد میں مسلمانوں کے شدید ردعمل کے نتیجے میں گرفتار شدگان کو رہا کردیا گیا اور عبدالقدیر کو بغاوت کے مقدمہ میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس عظیم قربانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈوگرہ حکومت نے مسلمانوں کو ایک فریق کی حیثیت سے قبول کرلیا اور ان کے ساتھ ایک باہمی سمجھوتہ عمل میں لایا لیکن یہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں تھا۔ حتمی نتیجے کے طور پر مسلمانانِ کشمیر نے مکمل آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد شروع کردی۔ لاہور میں علامہ اقبال کی سرپرستی میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے ایک جانب برصغیر کے مسلمانوں کو کشمیریوں کی حالت زار سے آگاہ کیا اور دوسری جانب کشمیریوں کو یہ باور کروایا کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے جو جدوجہد کررہے ہیں، اِس میں وہ تنہا نہیں۔ علاوہ ازیں اِسی سال میرواعظ مولانا یوسف شاہ نے جہاد کا فتویٰ جاری کردیا جس نے مسلمانانِ کشمیر میں نیاجوش و خروش پید اکردیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہتھیا ر بند ہوگئے۔ چنانچہ ہر ماہ اور ہر سال پے درپے نئی نوعیت کے واقعات جنم لینے لگے جن سے ڈوگرہ حکومت کو کبھی واسطہ نہ پڑا تھا اور نہ ہی وہ ظلم کی چکی میں پستے مسلمانوں سے اس کی توقع کرسکتی تھی۔ اُس کے حاشیہ ئ خیال میں کبھی یہ نہیں آیا تھا کہ مسلمان کبھی ہتھیار اٹھاکر مدمقابل آئیں گئے اور کبھی وہ سیاسی پلیٹ فارم سے اپنے حق کی آواز بلند کرینگے۔ سیاسی طور پر پہلے آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں لایاگیا۔ اگرچہ قبل ازیں مختلف سیاسی جماعتیں کام کررہی تھیں لیکن ان کا دائرہ کار وسیع نہ تھا۔ مسلم کانفرنس کو پہلی بار پورے جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس تمام عرصے کے دوران قائداعظم بھی متعدد بار کشمیر تشریف لئے گئے اور کشمیری مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ ڈوگرہ حکومت کی جانب سے کشمیری مسلمانوں کو لالچ، حرص، دھمکیوں، ظلم وستم اور مسلم کُش فسادات کے ذریعے دبانے کی بہرصورت کوششیں کی گئیں لیکن جو قربانی 13جولائی کو سرینگرکی سنٹرل جیل کے باہر 22افراد دے چکے تھے، ان کے لہو سے غداری کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا اور جن لوگوں نے کسی مرحلے پر آکر مخالفین کی چکنی چپڑی باتوں سے مرعوب و متاثر ہوتے ہوئے ایسا کربھی لیا، تو ان کا انجام بھی جلد ہی سامنے آگیا۔ ظلم کا ہر حربہ مسلمانوں پر آزمایا گیا اور ستم کی ہر دیوار ان پر ڈھائی گئی لیکن آفرین ہے عظیم لوگوں پر کہ انہوں نے شبِ دیجور میں بپا ہونے والی خوفناک آندھیوں میں بھی آزادی کی شمع فروزاں رکھی۔
آج پون صدی کے بعد بھی یہ شمع نہ صرف روشن ہے بلکہ اس کے شعلے آسمان کو چھورہے ہیں۔ وہ آگ جو دلوں میں لگی ہوئی تھی وہ تیزی کے ساتھ نئی نسلوں میں منتقل ہورہی ہے۔ بھارت کا ایک حربہ یہ تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں تاخیر کی جائے تاکہ جوش و جذبہ ماند پڑجائیں لیکن ایسا ہونے کے بجائے نئی نسلوں میں یہ جوش کہیں زیادہ ابل کر سامنے آیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال برہان وانی اور اس کے بعد کشمیری نوجوانوں کی جانب سے پیش کی جانے والی قربانیاں ہیں۔13جولائی 1931ء کو مسلمانان کشمیر نے جن قربانیوں کانذرانہ پیش کیا آج 90برس بعد بھی اس کا تسلسل جاری ہے۔ تقریبا ایک صدی گزرنے کے بعد بھی کشمیریوں مسلمانوں کے پیر وجواں کے جذبے اسی طرح توانا ہیں۔
واپس کریں