27اکتوبر۔۔کشمیر پر بھارتی فوج کا قبضہ۔پس منظر پیش منظر
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری:۔27اکتوبر1947ء کو بھارتی فوج نے تمام تر عالمی قوانین، عالمی اصولوں، منصوبہ قانون تقسیم ہند کوپامال کرتے ہوئے اپنی فوج زبردستی ریاست جموں وکشمیر میں اتاردی جس کے نتیجے میں مجاہدین ِ کشمیر جو آزادکشمیر کا موجودہ خطہ ڈوگرہ فوج سے بزور طاقت حاصل کرنے کے بعد سرینگر کے قریب پہنچ چکے تھے، کی پیش قدمی رک گئی۔ مجاہدین پچھلے تین چار ماہ سے مسلسل ڈوگرہ فوج کو نیست ونابود کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ مجاہدین کی بڑھتی یلغار سے گھبرا کر مہاراجہ ہری سنگھ اپنی راجدھانی سرینگر کو چھوڑ کر جموں کی طرف بھاگ نکلا تھا۔ اب یقین واثق تھا کہ اگلے تین چار روز میں مجاہدین سرینگر پرقبضہ کرلیں گے جس کے بعد پورا کشمیر بشمول جموں ان کے زیرنگیں آجائے گا۔ یہی وہ خدشہ تھا جس کے پیش نظر مہاراجہ ہری سنگھ نے فوری طور پر بھارت سے فوجی مدد طلب کی اور یوں بھارت نے اپنی فوجیں جموں وکشمیر میں سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتاردیں۔ اس سے پیشتر 6جون کو منصوبہ تقسیم ہند میں واضح طور پر اس امر کا تعین کردیا گیا تھا کہ ہندوستان کی برطانوی ریاستیں اپنے عوام کی اکثریتی مذہبی وابستگی کی بنیاد پر بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے میں آزاد ہوں گی۔ اس لحاظ سے ریاست جموں وکشمیر جہاں وادی میں مسلم آبادی 77فیصد اور جموں میں 61فیصد سے زائد تھی،کو بھی یہ اختیار بخوبی حاصل تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحا ق کریں۔ مہاراجہ ہری سنگھ کو یہ چیز قابل قبول نہ تھی نیز بھارتی حکمرانوں خاص طور پر پنڈت جواہر لال نہرو اور موہن داس کرم چند گاندھی نے مہاراجہ کو لالچ و ترغیب دیتے ہوئے مجبور کیا کہ وہ پاکستان کے بجائے بھارت سے الحاق کافیصلہ و اقدام کرے۔ تاریخی شواہد کے مطابق مہاراجہ کا اگرچہ بھارت کی جانب ابتدا میں لگاؤ یا جھکاؤ نہ تھا لیکن جب اس نے ترغیبات اور پھر دھمکیوں کو دیکھا تو اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ اس سے قبل وہ حکومت پاکستان کو متعدد خطوط ارسال کرچکا تھا جن میں پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا گیا تھا۔ نوزائیدہ ریاست اپنے اندرونی معاملات، حکومتی سیٹ اپ، مہاجرین کی آبادکاری، بھارت کے ساتھ اثاثوں کی تقسیم وغیرہ کے معاملات میں الجھی ہوئی تھی اس لیے مہاراجہ کو الحاق کے ضمن میں مزید انتظار کرنے کو کہا گیا۔ حکومت پاکستان مطمئن تھی کہ چونکہ قانون تقسیم ہند میں ریاستوں کے الحاق کا واضح طور پر فیصلہ ہوگیا ہے جس کی رو سے جموں وکشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ ہی الحاق کرے گی۔
جاہدین اگرچہ بے سروسامان تھے اور ان کے پاس توڑے دار بندوقوں یا تلواروں کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن اس کے باوجود یہ ان کی شاندار حکمت عملی، بھرپور ہمت اور کاری وار کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے منزلوں پر منزلیں مارتے سرینگر کے قریب تک فتوحات حاصل کرلی تھیں۔ سرینگر کو بجلی فراہم کرنے والی بجلی گھر کو تباہ کرنے کے بعد جب راجدھانی مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوب گئی تو اس نے مہاراجہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی اور وہ مہارانی تارا دیوی، محافظوں، خزانے، قیمتی سازوسامان اور دیگر اشیاء کے ہمراہ جموں کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔ اسی دوران بھارتی فوجیں سرینگر کے ہوائی اڈے پر اترنا شروع ہوگئیں۔ مجاہدین نے انھیں بھی اپنی بندوقوں کے نشانے پر رکھ لیا اور قریب تھا کہ بھارتی فوج کاآخری سپاہی بھی مجاہدین کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا، بھارت گھبرا کر یکم جنوری 1948ء کو یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اس عالمی فورم نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ریاست میں جنگ بندی کروادی اور فیصلہ کیا کہ کشمیری عوام کی اکثریتی رائے کے مطابق اس تنازع کا حل عمل میں لایاجائے گا۔ اگلے برس 5جنوری 1949ء کو ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دیے جانے کے مطالبے کی تائید کی گئی۔ اگلے پچیس برسوں میں کم وبیش 26قراددادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے عالمی پلیٹ فارم پر منظور کی گئیں جن میں کشمیری عوام کے مطالبے کی تائید کی گئی۔ بھارت نے روز اول سے کشمیری عوام کی رائے کا احترام کیے جانے کا وعدہ کیا۔ پنڈت جواہرلال نہرو نے عالمی فورم کے علاوہ دیگر فورمز پر کی گئی اپنی تقاریر میں واضح طور پر کشمیری عوام کو حق خودارادیت دیے جانے کے وعدے کا ہر بار اعادہ کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ریاست جموں وکشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرتا چلا گیا۔ 1952ء میں ریاستی اسمبلی کے لیے انتخابات کی داغ بیل ڈالی گئی۔بعدازاں ایسے متعدد اقدامات کیے گئے جن سے اس قبضے کو مزید تقویت ملی۔ اس کے برعکس کشمیری عوام نے بھارت کے اس قبضے کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ انھوں نے اگرچہ سن 47ء سے قبل ڈوگرہ فوج کے خلاف بندوق اٹھائی تو اس کے بعد وہ قابض بھارتی فوج کے خلاف نبرد آزما ہوگئے۔ سن 88ء میں تو کشمیری عوام نے باقاعدہ مسلح تحریک کا آغاز کردیا جو آج بھی پورے آب و تاب سے جاری ہے۔
بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتارنے کے لیے مہاراجہ کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی نام نہاد دستاویزات کا سہارا لیا جو آج تک دنیا کے سامنے پیش نہیں کی گئیں۔ ان دستاویزات پر مہاراجہ کے دستخطوں کی جو تاریخ درج ہے، اس دن مہاراجہ جموں میں تھا۔ اگرچہ مہاراجہ نے اپنے وزیراعظم کو فوجی امداد کے لیے دہلی بھیج رکھا تھا لیکن اسے یہ اختیار نہ تھا کہ وہ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کرے۔ بھارت چونکہ پہلے ہی سے طے کرچکا تھا کہ کچھ بھی ہو، کشمیر پر قبضہ کرنا ہے چنانچہ اسی ارادے کے ساتھ اس نے ایک جانب نام نہاد الحاق کاپراپیگنڈہ کیا اور دوسری جانب خاموشی کے ساتھ صبح سویرے طیاروں کے ذریعے فوجیوں کو سرینگر میں اتارنا شروع کردیا۔ اس کے بعد جو منظرنامہ وجود میں آیا، وہ آج 75برس گزرنے کے بعد بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ کشمیری عوام کی تیسری نسل اس غاصبانہ قبضے کے خلاف آج بھی تحریک آزادی کا علم بلند کیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہے۔ 5اگست 2019ء کے اقدام کے تحت اگرچہ اپنے تئیں بھارت نے مسئلہ کشمیر کو عالمی منظرنامے سے ہٹاکر اپنا اندرونی تنازع قرار دے دیا ہے اور اس کا درجہ ریاست یا صوبے سے بھی کم کردیاہے نیز غیرریاستی ہندو پنڈتو ں کی بڑی تعداد میں آبادکاری کاسلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ اب تک لاکھوں افراد کو ریاستی ڈومیسائل جاری کردیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود کشمیری عوام نے بھارت کے اس اقدام کو قبول نہیں کیا۔ ہرنوعیت کی پابندی کے باوجود احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارتی قبضے کو 75برس گزرچکے ہیں لیکن حریت وآزادی کے متوالوں کا جذبہ آج بھی پہلے دن کی طرح زندہ وتوانا ہے۔ بھارت یا دنیا اگر اس کو نہیں سمجھتی تو نہ سمجھے، لیکن جس دن ان جذبوں نے بھارت کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا تب اچھی طرح سمجھ آجائے گی۔
واپس کریں