دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھارت کایوم جمہوریہ اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
بھارت کا 73واں یوم جمہوریہ آج منایا جارہاہے۔ یوم جمہوریہ کی تاریخ یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے برطانوی راج کے ایکٹ 1935کو منسوخ کرکے آئین ہند کا نفاذ عمل میں لایا۔ دستور ساز اسمبلی نے بھارتی آئین کو 26نومبر1949ء کو اختیار کرنے کی منظوری دی جبکہ اس کا عملی نفاذ 26جنوری 1949ء کو عمل میں لایا گیا۔ اس حوالے سے جہاں بھارت بھر میں مختلف نوعیت کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں وہاں ایک خصوصی تقریب کااہتمام مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی کیاجاتاہے۔ سرینگر کے شیرکشمیرکرکٹ سٹیڈیم میں منعقدہ مرکزی تقریب میں عموماً بھارتی وزیراعظم مہمان خصوصی ہوتے ہیں۔ بھارت یہ مرکزی تقریب مقبوضہ کشمیر میں ایک خصوصی مقصد کے تحت منعقد کرتا ہے۔ اس کا ایک واضح اور نمایاں مقصد دنیا بھر کو یہ پیغام دینا ہوتاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات بالکل پرامن ہیں۔ لوگ تقریبات میں شریک ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں بھرپور جوش و خروش کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کا ایک اندازہ شیرکشمیر سٹیڈیم سرینگر اور مولانا آزادسٹیڈیم جموں میں منعقدہ تقریبات سے بھی لگایاجاسکتاہے۔

بھارت کے اس کھوکھلے دعوے کی نفی سیکورٹی فورسز کی جانب سے مقبوضہ وادی کو مکمل طور پر فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے، ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کرنے، لوگوں کو گھروں میں محصور کردینے، سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنے، ذرائع مواصلات کو مکمل طور پرمعطل کردینے جیسے اقدامات خصوصی بروئے کار لائے جانے سے ہوتی ہے۔ اس دن کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پاکستان، آزادکشمیر اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھارت کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے کاروبار مکمل طور پر بند رکھے جاتے ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیاجاتاہے اور بھارت کے خلاف سیاہ پرچم لہراتے ہوئے دنیا کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی جاتی ہے کہ کشمیری عوام نے پون صدی سے جاری بھارت کے غاصبانہ قبضہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ ایک بڑی ریاست جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اس کے ظالمانہ اقدامات خاص طور پر سرینگر اور جموں میں کرفیو کے نفاذ سے اس کے اپنے دعوے کی نفی ہوجاتی ہے۔

اگر کشمیری عوام نے اس کے قبضہ کو تسلیم کرلیا ہوتا تو اسے اپنی مرکزی تقریبات کے انعقاد کے لیے ان سٹیڈیم کو فوج کی تحویل میں دیتے ہوئے شہروں میں کرفیو نافذ نہ کرنا پڑتا۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے یوم جمہوریہ منانے کے لیے سرکاری سطح پر خصوصی انتظامات اور اقدامات کئی روز پیشتر ہی شروع کردیے جاتے ہیں۔ اس کی خصوصی تقریب عموماً شیرکشمیر سٹیڈیم سرینگر میں منعقد کی جاتی ہے تاکہ یہاں سے دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ کشمیر ایک پرامن خطہ ہے۔ یہاں کے باسی مرکزی سرکار کی پالیسیوں سے خوش ہیں اور یہاں آزادی نام کی کوئی تحریک موجود نہیں۔ حالانکہ یہ تقریب بندوقوں کے سائے میں سخت سکیورٹی کے حصار میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کئی روز پہلے ہی سے سخت حفاظتی انتظامات اختیار کرلیے جاتے ہیں۔ ہر آنے جانے والے شخص کی سخت تلاشی لی جاتی ہے۔ گاڑیوں کی تو خصوصی چھان بین کی جاتی ہے۔ دارالحکومت میں فوج کی اضافی نفری تعینات کی جاتی ہے۔ ہر چوراہے، موڑ پر چوکی قائم کرتے ہوئے ایک طرح سے اس شہر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا جاتاہے محض یہ پیغام دینے کے لیے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ ہیں حالانکہ وہ تو اس دن کو ہڑتال اور حکومت کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ ٹی وی چینلز اور میڈیا کے دیگر ذرائع بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب کی براہ راست کوریج میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ سٹیڈیم کے باہر شہر کے گلی کوچوں، سڑکوں اور نواحی دیہاتوں وغیرہ میں کس نوعیت کا احتجاج بروئے کار لایاجارہاہے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے قبل تک بھارتی وزیراعظم ان تقریبات سے خصوصی خطاب کیا کرتے تھے جن میں کشمیریوں کے لیے خصوصی مراعات کے اعلانات کیے جاتے تاکہ انھیں دانہ ڈالاجائے اور بھارت کا حامی ہونے کی ترغیب دلائی جائے لیکن غیور کشمیری عوام نے ان مراعات و اعلانات کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔
صدر ریاست بیرسٹرسلطان محمو چوہدری جو مسئلہ کشمیر کو بھرپور طور پر اجاگرکرنے کے سلسلہ میں آج کل یورپ کے دورے پر ہیں، نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ یورپی یونین کشمیر کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یورپی پارلیمنٹ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل خصوصی کشمیر کمیٹی تشکیل دی جائے۔ یہ مطالبات کرتے ہوئے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا کہنا ہے کہ کشمیری عوام یورپی یونین اور یورپی پارلیمنٹ پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ کشمیر دنیا کا خطرناک ترین خطہ ہے جس کا اقراراس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی کیا تھا۔

بیرسٹرسلطان محمودچوہدری کا کہنا تھا کہ یورپی یونین 27ممالک پر مشتمل اقوام متحدہ کے بعد بڑا ادارہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلہ میں یورپی یونین بڑا فعال اور کلیدی کردار ادا کرسکتاہے۔ صدرریاست بیرسٹرسلطان محمودچوہدری نے اپنا یہ مطالبہ برسلز میں کشمیر پیس فورم انٹرنیشنل بیلجیئم کے زیراہتمام منعقدہ عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے پیش کیا جس میں ممبران یورپی پارلیمنٹ، بیلجیئم پارلیمنٹ کے اراکین، سینٹ کے ممبران، یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیداران اور مختلف تھنک ٹینکس کے نمائندگان نے بھی خطاب کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین و پارلیمنٹ کے اراکین نے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹرسلطان محمودچوہدری کے موقف سے اصولی اتفاق کیا اور اعلان کیا کہ وہ جلد ہی یونین کاکشمیر پر نہ صرف خصوصی نمائندہ مقرر کریں گے بلکہ پارلیمنٹ میں کشمیر کمیٹی کے قیام کی کوششیں بھی کریں گے۔
بیرسٹرسلطان محمودچوہدری مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں اجاگرکرنے کے سلسلہ میں خاصے متحرک ہیں۔

اپنے حالیہ دورے کے دوران وہ یورپی پارلیمنٹ، برطانوی پارلیمنٹ سے خطابات کے علاوہ امریکی صدر جوبائیڈن کے دنیا بھر کی اہم شخصیات کو دیے گئے خصوصی ناشتہ میں بھی شرکت کریں گے جہاں ان کی ملاقاتیں امریکی کانگریس کے اراکین اور دنیا بھر سے آئی ہوئی اہم سیاسی شخصیات سے بھی ہوں گی اور اس طرح انھیں مسئلہ کشمیر کو ان اہم شخصیات تک پہنچانے کاخصوصی موقع میسر آئے گاجس کے خاطر خواہ اثرات مسئلہ کشمیر پر مرتب ہوں گے۔ یورپ، برطانیہ، امریکہ اور دنیا کی دیگر اہم شخصیات کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم وجبر، انسانی حقوق کی شدید پامالیوں اور کشمیری عوام کے پیدائشی حق، حق خودارادیت کے متعلق آگہی فراہم ہوسکے گی۔
واپس کریں