دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گورنر و وزیرِ اعلیٰ سے وفاقی امنگ تک ۔نعیم مسعود
مہمان کالم
مہمان کالم
دیکھا اسد کو خلوت و جلوت میں بارہا / دیوانہ گر نہیں تو ہشیار بھی نہیں ! دیوانگی و ہشیاری کو ذرا نظرانداز کرتے ہوئے، مدِنظر فقط یہ رکھئے کہ جس ریاست میں سربراہ ریاست کی اہمیت سے انحراف ہو یا سربراہ مملکت کو سربراہانِ حکومت بنتی ہوئی توقیر نہ دیں کیا وہاں جمہوریت یا مکالمہ کا کہیں بسیرا ہو گا ؟ آئین، قانون، *پَرسونا ڈیزِگنیٹا* (Persona Designata), روایات اور اخلاقیات کے بغیر ریاستیں چل سکتی ہیں نہ معاشرے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مدعی ہوں یا ملزم ہر ایک صورت سچا اپنے ہی آپ کو سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ دین کے معاملہ میں بھی بعض اوقات ہم اپنے اقوال یا اطوار پر نظرثانی کا تکلف نہیں کرتے۔ اور یہ وہ ادائیں ہیں گر حکمران طبقہ کرے تو اداروں کی تباہی ہے، اگر عام آدمی کرے تو سوسائٹی مفلوج !
فقیر اکثر یہ سوچتا ہی نہیں اس پر عمل بھی کرتا ہے کہ سیاسی امور اور جمہوری شعور ہی کے گرد رہے اور ہائر ایجوکیشن کو موضوع سخن کم بنائے۔ اس لئے کم بنائے کہ کوئی فرق نہیں پڑنے والا لیکن دل ناداں ہے کہ بہکنے سے باز نہیں آتا، بھلے ہی اثر سیاست کی صحت میں بھی نہیں ہوتا۔ پھر بھی اکثر یہ دیکھتا ہوں صحافتی مفتیانِ کرام اور قلمی علمائے کرام ایجوکیشن کی تمام تر نعمتوں اور سعادتوں کو سو فی صد انجوائے کرتے ہیں لیکن اپنی ذات و برکات کی خاطر تاہم ازخود تعلیم اور قوم کیلئے ان کا قلم خشک اور کیمروں کے سامنے زبان خاموش ہے۔ جس دن یہ ذاتی مراعات کا "طلسم" ٹوٹ گیا اس دن تعلیمی صدر دروازہ بھی کھل جا سم سم کے مصداق قوم کیلئے یقیناً کھل جائے گا۔ میں جید دانشوروں کو دعوت دیتا ہوں کہ اپنی ذاتی دانش گاہوں کو از راہِ کرم تحقیقی اور تعلیمی دانش گاہوں کیلئے کھولیں، اس سے انقلاب آئے نہ آئے اشرافیہ کے کسی کان پر جُوں تو رینگے گی !
ہم اس حد تک تو یقین رکھتے ہیں کہ اتحاد چاہے سیاسی جماعتوں میں ہو یا مقتدرہ کے سنگ اپنی رائے کی قربانی نہیں دینی چاہیے یہی جمہوریت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اخلاقیات و روایات کو انا کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ تمام وزرائے اعلیٰ کو اپنے گورنرز کا احترام کرنا چاہئے ، مانا کہ 18 ویں ترمیم نے گورنرز کو خاصا سیریمونیل کردیا مگر اہلِ نظر کو معلوم ہے کہ چانسلر (پَرسونا ڈیزِگنیٹا) غیر اہم یا سیریمونیل نہیں کیا۔ اب کے پی کے اور پنجاب اپنے گورنرز کی چانسلر حیثیت کو خاطر میں نہ لائیں تو ن لیگ کی اتحادی محبتوں اور تحریک انصاف کی سیاسی عداوتوں میں فرق کیا رہ گیا ؟ پنجاب اور کے پی کے گورنرز کے ساتھ دونوں وزرائے اعلیٰ ربط اور ضبط کا سلیقہ رکھنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے لیکن سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اس سلیقگی میں شائستگی کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ بہرحال چانسلر تناظر میں پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کا رویہ نامناسب ہے۔ محترمہ مریم نواز کو وزارتِ اعلیٰ منجھے ہوئے سیاست دان اور عوامی رہنما کی طرح نبھانی ہوگی پرویز رشید بے شمار خوبیوں کے باوجود عوامی رنگ ڈھنگ والے لیڈر نہیں ہیں اور مریم اورنگ زیب سے عظمیٰ بخاری تک بھی عوامی ترنگ سے کوسوں دور شہباز گل اور زلفی بخاری ہی سے ہیں۔ ماضی روز روشن کی طرح یہ واضح کرتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی اٹھان اور اڑان کے پس منظر میں اساتذہ اور پولیس کی سہولت کاری و عقیدت اور ڈیولپمنٹس کا عمل دخل ہے، پنجاب کو ماضی میں ہمیشہ ان کی نگرانی کیلئے مضبوط وزراء ملے جو آج نہیں ہیں۔ اس پر بہرحال نظرثانی کی ضرورت ہے۔
جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے، اس نے پنجاب کو ایک کارکن لیول اور وضع دارانہ شہرت والا گورنر دیا ہے، راقم نے الیکشن 2024 سے چند ماہ قبل یہ عرض کی تھی ( جنگ ، 26 نومبر 2023) اور ("زاویہ زرداری" صفحہ 341) کہ اگر آصف علی زرداری کو پنجاب کو گورنر دینے کی آپشن ملے تو وہ ایسی شخصیت دریافت کریں جو زیرک اور تعلیم دوست چانسلر بھی ہوں۔ زاویہ وقت نے ثابت کیا ہے سردار سلیم حیدر خان گورنر کی حیثیت سے خاصے سودمند ہیں، پیپلزپارٹی ہی نہیں سیاسی جماعتوں کو بھی عزت دیتے ہیں، بطور چانسلر تعلیم کی باریکیوں کو سمجھنے لگے ہیں۔ لیکن انہیں "سرکاری قانون دانوں" کے سنگ ذاتی قانونی مشیران کو بھی دریافت کرنا ہوگا۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ گورنر صاحب کو رخسانہ بنگش کا پیغام معتدل اور مفاہمت پسند ہی ملے گا کیونکہ وہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے آئے گا تاہم بلاول بھٹو زرداری کا پیغام جہاں اصولی ہو گا وہاں تھوڑا سا ترقی پسند اور پرجوش بھی ہوگا، پھر ان سب چیزوں کو دیکھ کر بیچ والا راستہ اپنانا ہوگا۔ یقین جانئیے گورنر اگر مسلم لیگ نواز کا بھی ہو تو نواز فیکٹر اس کو بھی ڈِیو عزت نہیں دے سکتا ، پیپلزپارٹی تو رہی پیپلزپارٹی۔ جناب سردار سلیم حیدر خان کو یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ چار دہائیوں میں پیپلز پارٹی کے گورنر ٹکا خان کارکنان کو گورنر ہاؤس میں جائز عزت نہ دے سکے، سلمان تاثیر صاحب پیپلزپارٹی کے گورنر ضرور رہے، وہ اچھے چانسلر بھی تھے ، لیکن وہ پی پی چھوڑ چکے تھے، جنرل مشرف نے پہلے انہیں نگران وزیر بنایا اور بعد ازاں گورنر پنجاب ، پھر انہیں صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی نے 2008 میں برقرار رکھا۔ ان کے بعد سردار ذوالفقار کھوسہ کا بطور گورنر لایا جانا دلخراش رہا، شاید انہیں قانون دان کے طور سے لایا گیا کہ شہباز شریف اینڈ کمپنی کی ٹَسل میں وہ کارگر ہوں گے مگر وہ اپنی ذات اور قانون ہی میں پھنسے رہے جب ہٹایا گیا تو وہ "روحانی" طور سے پیپلزپارٹی سے دور ہوچکے تھے۔ پھر مخدوم احمد محمود پیپلز پارٹی کے گورنر آئے تو مثبت اور موثر ثابت ہوئے ، بطور چانسلر بھی عزت کمائی لیکن جیالا جبلت کیلئے باعثِ تسکین نہ تھے، تھے کامیاب ! بہرکیف سردار گورنر موثر تجربہ ہے۔
مختصر یہ کہ کم و بیش 25 وائس چانسلرز کی تعیناتی میں وزیراعلی کو چانسلر سے باقاعدہ ملاقات اور ہم آہنگی بروئے کار لانی چائیے تھی۔ آرٹیکل 105 اور من مانی کے اطلاق کے باوجود نوٹیفکیشنز میں " چانسلر آرڈر" کی اصطلاح کندہ کرنا ضروری تھا ! کیوں؟ اس لئے کہ چانسلر کی اہمیت کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال سوائے اِکا دُکا سفارش کے سرچ کمیٹی تک معاملہ درست رہا مگر وزیرِاعلیٰ کے فائنل انٹرویو میں ہر یونیورسٹی کے 3 کے پینل کو نہ بلانا سب متنازعہ کر گیا, بےجا ایجنسی رپورٹ پر اپنی فولادی حیثیت کا ڈھنڈورا پٹوانا، گورنر کے درست موقف سے انحراف اور ربط کے فقدان نامناسب تھے۔ کہاں گئے میثاقِ جمہوریت، توقیر سربراہ ریاست اور اتحادی فلسفہ ؟
واپس کریں