مہمان کالم
روزانہ میرا ان باکس بھرا ہوا ہوتا ہے، کئی لوگ پاکستان سے یہاں کی نوکریوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، اور کئی لوگ بیچارے ویزہ خریدنے اور یہاں پر پہنچنے کے بعد نوکریاں ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھکنے کے بعد ہم جیسے لوگوں کو میسجز کرتے ہیں کہ ہمیں نوکری چاہیے، میں ایسے تمام لوگوں سے بات بھی کر لیتا ہوں، ان کی سی وی بھی منگوا لیتا ہوں، اور کوشش کر کے کچھ لوگوں کو سی وی بھیج بھی دیتا ہوں کچھ لوگوں کو فون بھی کر دیتا ہوں، اگر وہ میرے شہر میں ہی ہو تو اس سے ملاقات بھی کر لیتا ہوں اس کو حوصلہ بھی دے دیتا ہوں، بس میں یہ کر سکتا ہوں، کبھی کبھی کچھ ایسی سی ویز بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں یہ تھوڑا سا امکان ہوتا ہے کہ شاید ان کے لیے کہیں فلاں جگہ یا فلاں دوست سے بات کی جائے گی، تو شاید کوئی نوکری نکل آئے گی۔ لیکن جان لیں کہ ہماری اپنی یہاں پر حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ نوکری ہم نے نہیں دینی ہوتی نوکری اس کمپنی نے یا اس کمپنی کے مالکان نے دینی ہوتی ہے، جو مقامی سعودی ہوتے ہیں، اور ان کے لیے سب سے بڑا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی نیا آدمی رکھیں گے، تو اس کا اتنا مہنگا اقامہ اور اس کے دوسرے اخراجات انہیں برداشت کرنے ہوں گے وہ ان کو اتنا آؤٹ پٹ بھی دے سکے گا یا نہیں۔
اب چند گذارشات یہ ہیں کہ جو لوگ پاکستان میں رہ کر جب یہ پوچھتے ہیں کہ وہ یہاں آنا چاہتے ہیں تو میں انہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ آپ یہاں کیسے آ سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی اچھی پروفیشنل ڈگری ہے، جس کی سعودی عرب میں ڈیمانڈ ہونا بھی ضروری ہے، یعنی یہ تو ممکن ہے کہ کئی لوگ یہ کہیں کہ انہوں نے کمپیوٹر سائنسز میں فلاں کیا ہوا ہے یا انہوں نے یوٹیوب مارکیٹنگ اور فلاں فلاں کورس کئے ہوئے ہیں، تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ کمپیوٹر ٹیک کے پروفیشن میں یہاں تقریبا پاکستانیوں کے لیے نوکریاں ناپید ہیں بالکل نہیں ملتی، زیادہ سے زیادہ کمپیوٹر آپریٹر ٹائپ کی نوکریاں مل جاتی ہیں اور وہ بھی اب اس لیے مشکل ہیں کہ یہاں پر ایسی تمام نوکریوں پر ترجیحی بنیادوں پر سعودی لڑکے اور لڑکیوں کو نوکری دی جاتی ہے۔ جتنے قابل ہمارے ہاں لوگ ان نوکریوں کے لیے یہاں پر آنا چاہتے ہیں۔ اتنے ہی قابل یہاں کے مقامی لوگ اب موجود ہیں۔ پھر نئے آنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہوتا ہے کہ انہیں مقامی زبان عربی نہیں آتی، ڈاکومنٹ کنٹرولر میں کئی کمپنیوں کو صرف عربی جاننے والا آدمی چاہیے ہوتا ہے، اور اکثریت کو انگریزی بھی نہیں آتی، یعنی یہ دعوی تو موجود ہوتا ہے کہ انہیں انگریزی آتی ہے، لیکن واقعتا انگریزی نہیں آتی، جو کسی کام کے لیے ضروری ریکوائرمنٹ کی حد تک بھی ہو۔
ابھی ایک صاحب نے مجھے ایسے ہی ان باکس میسجز کیے، میں نے ان سے بات کی تو ان صاحب نے مینیجرل لیول پر پاکستان میں کئی جابز کی ہوئی ہیں، اور آخری نوکری وہ کسی سکول میں بحیثیت پرنسپل کر رہے تھے، ان کے پاس اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری ہے، کچھ انہوں نے ٹیچر ٹریننگ پروگرامز وغیرہ بھی کیے ہوئے ہیں، یقینا وہ ایسے پروگرامز ہیں، جن کی پاکستان میں تو کوئی حیثیت ہوتی ہوگی۔ لیکن انٹرنیشنل مارکیٹ میں وہ کسی بھی طرح سے ایفلیٹڈ نہیں ہے۔ ایک اور مزید بات یہ کہ انہوں نے ریحان باقر صاحب کے 25 ہزار روپے والے سیشن لیے، جس میں انہوں نے ان کی ڈگریز دیکھ کر اور ان کو وہ سیشن کروانے کے بعد یقین دلوایا، کہ آپ یہاں پر آ جائیں تو آپ کو ایک ہفتے کے اندر نوکری مل جائے گی وہ تین افراد یہاں پر آگئے ہیں، اور اب ریحان باقر صاحب ان سے رابطہ ہی نہیں کر رہے۔ کیونکہ وہ صرف سیشن کے ہی پیسے لیتے ہیں اس سے آگے وہ بالکل کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ بندہ سات آٹھ لاکھ روپے خرچ کر کے آگیا ہے اور نوکری ڈھونڈھ رہا ہے، اب اس کو اقامہ بھی رینیول کروانا ہے۔
میں نے ان صاحب کی سی وی منگوائی ہے، کچھ دوستوں کو بھی کہہ دیا، جہاں سے کوئی ممکنہ طور پر ان کے لیے جاب کا کوئی معاملہ ہو سکے، لیکن میں چند چیزیں ضرور بتانا چاہوں گا۔ پاکستان سے آنے والے وہ تمام لوگ جنہوں نے ماسٹرز کی ڈگریاں لی ہوئی ہیں، خصوصا اسلامیات، اردو، مطالعہ پاکستان، تاریخ پاکستان، تاریخ اسلام وغیرہ وغیرہ میں، تو وہ یہ بات جان لیں کہ سعودی عرب میں ان تخصص کی ڈگریز کی ٹکے کی بھی ویلیو نہیں ہے۔ پاکستان میں آپ چاہے کسی کالج، یونیورسٹی لیول پر بھی ان ڈگریز کی بنیاد پر پڑھاتے ہوں، لیکن سعودی عرب میں یا عرب ممالک میں ان کی کوئی ویلیو نہیں ہے، ان کی بنیاد پر آپ کو کوئی جاب نہیں ملنے والی۔
مزید یہ کہ سعودی عرب میں کمپیوٹر آپریٹر، پرسنل سیکرٹری سیکرٹری، سیل سیکرٹری، آفس سیکرٹری، فون آپریٹر، ڈاکومنٹ کنٹرولر یا آفس سے متعلقہ جتنے بھی ایسے شعبے ہیں، ان میں 99 فیصد مقامی لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے، حتی کہ ان میں سے کئی شعبوں کی طرف ویزے بھی نہیں نکلتے، یا اگر کسی کے پاس اب ان پروفیشن کا اقامہ موجود ہو تو اس کا اقامہ ہی ری نیول نہیں ہوتا، جن بڑی کمپنیوں میں ابھی بھی کچھ لوگ اس طرح کی غیر ملکی جاب کر رہے ہیں بس وہ کر رہے ہیں، مزید جانے کب تک کریں گے اس کا کچھ نہیں پتہ۔ سعودی عرب میں ابھی بھی ڈاکٹرز، انجینیئر، سرویر، جیولوجسٹ، میڈیکل کے شعبے سے متعلقہ دوسری نوکریاں ایکیوپمنٹ آپریٹر گیس ویلڈر، ہیوی ٹرک ڈرائیورز یا بیلو کالر جاب میں پھر بھی بہت اچھی نوکریاں مل جاتی ہیں، مگر اچھی سے مراد یہی ہے کہ ان کی بہت محدود قسم کی تنخواہیں ہوتی ہیں۔ مگر جو لوگ کمپنی ویزا پر آتے ہیں۔ ان کے لیے یہ طے شدہ ہوتا ہے کہ ان کی چاہے تنخواہیں کم ہوں گی۔ لیکن ان کا اقامہ انشورنس رہائش وغیرہ کے معاملات کم از کم کمپنی کر دے گی تو وہ جو ٹارگٹ سیٹ کر کے آتے ہیں کم از کم اس کو وہ مینج کر لیں گے۔ اور جو واقعی کسی پروفیشنل جاب پر اتے ہیں کسی اچھی نوکریوں پر اتے ہیں ان کا ایک باقاعدہ اچھا کنٹریکٹ ہوتا ہے اور وہ اس کے مطابق انہیں نوکریاں ملتی ہیں۔
اب جو لوگ ریحان باکر جیسے لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں اور ان کے سیشن کی ایک بڑی رقم ادا کرنے کے بعد یہاں پر آتے ہیں، تو انہیں ایک مشورہ ضرور ہے کہ یہاں آنے سے پہلے اچھی طرح سے جان لیں ورنہ یہاں آنے کے بعد جو حالات کا سامنا وہ کرتے ہیں، اس وقت بد قسمتی سے جنہوں نے اپ سے سیشن کے پیسے لیے ہیں وہ اپ کے میسج کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کا کام یہیں تک تھا کہ انہوں نے ابھی جیب سے سیشن کے نام پر پیسے نکالنے تھے، اس کے بعد پھر آپ کو خود اندازہ ہو جاتا ہے، کہ آپ نے کیا بھگتنا ہے، آپ اس طرح کے ویزوں پر جو خرید کر آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ سن لیں کہ وہ قانونی طور پر ہی درست نہیں ہوتے، ایجنٹ آپ کو سب سے پہلا جھوٹ بولتے ہیں کہ آپ کا اقامہ تین ماہ کا لگتا ہے، لیکن وہ تین ماہ کا اقامہ نہیں ہوتا وہ بلکہ ویزہ کی تین ماہ کی معیادی مدت ہوتی ہے۔ جس کے بعد آپ کو اقامہ لگوانا ہوتا ہے اور وہ ایجنٹ اس کی ذمہ داری نہیں لیتا، کیونکہ ایک سال کے اقامے کی فیس مع انشورنس 10 ہزار ریال تک کی ہوتی ہے۔ یہاں تب ہی آئیں، جب آپ کو 100 فیصد یقین ہو کہ آپ کو کوئی شخص یہاں پر اپ کا دوست یا رشتے دار بیٹھا ہے، جو آپ کے کھانے پینے کے اخراجات، آپ کے ساتھ بھاگ دوڑ اور دوسرے معاملات کو سنبھال لے گا، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اس طرح آنے کے بعد آپ کو 100 فیصد نوکری نہیں ملے گی۔ نوکری تو قسمت سے کئی لوگوں کو مل بھی جاتی ہے لیکن 80 فیصد لوگ ایسے آنے والے خوار ہی ہوتے ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ ان 20 فیصد خوش قسمت میں سے ہی ہوں گے۔
ریحان باقر جیسے لوگ آپ سے پیسوں کے بدلے سیشن میں جو باتیں بتاتے ہیں، وہ باتیں تو آپ خود بھی انٹرنیٹ پر سرچ کر سکتے ہیں، اور جو ترغیبی باتیں ہیں وہ بتاتے ہیں وہ ایسی قابل عمل نہیں ہوتی، جیسے وہ بتاتے ہیں حقیقت بتانے کے لیے ہم مفت میں بتا بھی دیں تو وہ حقائق آپ کو اچھے نہیں لگتے، ہر روز ہر دوسرے روز ایک سی وی مجھے کوئی نہ کوئی دوست بھیجتا ہے، میں کتنے لوگوں کی نوکری کے لیے کوشش کر سکتا ہوں، ایسا نہیں ہے کہ میں کبھی بھی کسی کو منع کرتا ہوں میں پوری کوشش کرتا ہوں، سعودی عرب آنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کریں، اگر میں آپ کو سچ بتاؤں تو وہ یہ ہے کہ آج میں ایک اچھی نوکری کر رہا ہوں، لیکن اگر کل مجھے یہی کمپنی اس نوکری سے نکال دیتی ہے یا میں یہ نوکری چھوڑ دیتا ہوں، تو میں باوجود اتنے اچھے تعلقات کے شاید اتنی تنخواہ کی دوسری نوکری یہاں پر اسانی سے ڈھونڈ نہ سکوں، میرے آس پاس ایسے بیسیوں دوست ہیں جو بہت اچھی اچھی نوکریوں پر تھے اگر ان کی نوکری کسی بھی وجہ سے چلی گئی تو آج چھ چھ ماہ ہو گئے ہیں جو یہاں کے مقامی ہیں عربی جانتے ہیں یہاں کے لائف سٹائل کو سمجھتے ہیں، یہاں کے کاروبار اور معاملات کے تجربہ کار ہیں وہ دوبارہ نوکریاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے چھ چھ آٹھ آٹھ مہینے سے پریشان پھر رہے ہیں۔
اس لیے بھائیوں سعودی عرب آنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کریں اپنے حالات معاملات دیکھ کر کے یہاں کے بارے میں درست معلومات لے کر پھر کسی ایسے فیصلے پر جائیں تو بہتر رہے گا۔ یہاں لوگ لاکھوں نہیں کروڑوں روپے بھی کما لیتے ہیں، لیکن نئے آنے والوں کے لیے یہاں پر اتنی آسانیاں نہیں ہیں جب تک کوئی آپ کو سنبھالنے والا نہ ہو۔ خصوصا ان لوگوں کے لیے جن کے پاس یہاں سے متعلقہ ارریلیونٹ ڈگریاں ہیں وہ پاکستان میں چاہے کتنی بھی اہمیت رکھتی ہیں لیکن ان کی یہاں پر کوئی ویلیو نہیں ہے۔
واپس کریں